آج سابق وزیر اعظم پاکستان اور پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین شہید ذوالفقار علی بھٹو کی 90 ویں سالگرہ منائی جارہی ہے۔ آپ کو قائد عوام یعنی عوام کا رہبر اور بابائے آئین پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ آپ پاکستان کی تاریخ کے مقبول ترین وزیر اعظم تھے۔ شہید ذوالفقار بھٹو ایک عالمی رہنما تھے۔ 1974ء میں لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی قائدانہ اور انتھک کوششوں کا ہی نتیجہ تھا۔
سنہ 1963ء میں ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے امریکا کے سرکاری دورے پر گئے اور وائٹ ہاؤس میں ان کی ملاقات امریکی صدر جان ایف کینیڈی سے ہوئی۔ اس ملاقات کے دوران جان ایف کینیڈی نے ذوالفقار علی بھٹو کی اعلیٰ سفارت کاری، ذہانت اور مدبرانہ سوچ کو دیکھتے ہوئے کہا اگر آپ امریکن ہوتے تو میں آپ کو اپنی کابینہ میں شامل کرلیتا۔ اس پر ذوالفقار علی بھٹو نے صدر کینیڈی کو جواب دیتے ہوئے کہا، ’مسٹر پریذیڈنٹ محتاط رہیں اگر میں امریکن ہوتا تو آپ کی جگہ پر ہوتا‘۔
جب ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع کیا تو امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کو خصوصی دورے پر پاکستان بھیجا گیا جس نے بھٹو صاحب کو دھمکی دی کہ اگر انہوں نے ایٹمی پالیسی ترک نہ کی تو ان کو عبرتناک مثال بنا دیا جائے گا۔ بھٹو صاحب نے امریکی دھمکی کو مسترد کیا اور ڈاکٹر قدیر خان کی مکمل سرپرستی کی۔
گھاس کھائیں گے پر ایٹم بم بنائیں گے، ہم دنیا کو دکھا دیں گے کہ ہم کسی سفید ہاتھی کے محتاج نہیں، ہم آزاد اور خود مختار قوم ہیں۔۔ یہی وہ الفاظ تھے جن کی پاداش میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی۔ جب 1979ء میں بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی تو ان کو یہ خوشخبری مل چکی تھی کہ پاکستان ایٹم بم بنانے کی صلاحیت حاصل کرچکا ہے۔
دشمن پاکستان کو مضبوط نہیں دیکھنا چاہتے تھے اسی لیے ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کروایا گیا جو ایک عالمی سازش تھی۔ عالمی سامراجی قوتوں نے ڈکٹیٹر ضیاء کے توسط سے ایک منتخب وزیر اعظم اور 1973ء کے آئین کے خالق ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکوا دیا۔ آج تک عوام اس عظیم سیاستدان کو نہیں بھول سکے جس نے پاکستانی سیاست کے نئے دور کی بنیاد رکھی اور عوام کو اظہار رائے کے ساتھ اپنے ووٹوں کے ذریعے قیادت منتخب کرنے کا حق دلوایا۔
پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ افواج پاکستان سمیت تقریباً 80 ہزار پاکستانی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی جانیں قربان کرچکے ہیں مگر اس کے باوجود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کی قربانیوں کو نظر انداز کردیا ہے اور پاکستان کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔ شاید اس کی وجہ ہمارے موجودہ حکمرانوں کی ناقص حکمت عملی اور مسلم لیگ (ن) کی نااہل حکومت کی ناکام خارجہ پالیسی ہے۔ نا اہل وزیر اعظم نواز شریف کو اس وقت صرف اپنے خاندان کی فکر ہے۔ نواز شریف سمیت پورا شریف خاندان اور اسحٰق ڈار سمیت مسلم لیگ (ن) کے دیگر اہم رہنما کرپشن مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایسے میں یہ کس طرح اپنے ملک کا مقدمہ لڑنے کی جرات کریں گے۔
آج ذوالفقار علی بھٹو زندہ ہوتے تو پاکستان کی داخلہ اور خارجہ صورتحال تبدیل ہوتی اور امریکہ کی پاکستان کو دھمکیاں دینے کی جرات نہ ہوتی۔ آج ملک کو بھٹو جیسے عظیم لیڈر کی ضرورت ہے۔ بہرحال موجودہ ملکی حالات کے پیش نظر اور امریکی صدر کی دھمکیوں کے بعد قومی مفاد اسی میں ہے کہ اب پاکستان کا ہر سطح پر بھرپور دفاع کیا جائے اور تمام پارلیمانی جماعتیں یک زبان ہو کر امریکی دھمکیوں کا بھرپور جواب دیں۔