آسٹریلیا ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کا عالمی چیمپئین بن گیا۔ ورلڈ کپ کے فائنل میچ میں نیوزی لینڈ کے خلاف ٹاس جیتنے کے بعد آسٹریلیا کےلیے مقابلہ یک طرفہ ثابت ہوا۔ آسٹریلیا نے مچل مارش اور ڈیوڈ وارنر کی عمدہ بیٹنگ کی بدولت آٹھ وکٹوں سے کام یابی حاصل کی۔
آسٹریلیا کو فائنل جیتنے کی عادت سی ہے،اور کیوں نہ ہو آسٹریلیا نے سب سے زیادہ ناک آؤٹ میچز جو کھیلے ہیں۔ مجموعی طورپر آسٹریلیا نے انیس ناک آؤٹ میچز کھیلے ہیں۔ تمام فارمیٹ کے ملا کر 11 فائنل ۔ جس میں سے اس نے آٹھ میں کام یابی حاصل کی ۔ 7 پچاس اوورز فائنل، دو چیمپئنز ٹرافی فائنل اور دو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ فائنل۔اس کے علاوہ پچاس اوورز کا ایک کوارٹر فائنل اور ایک سیمی فائنل کھیلا ۔
چیمپئینز ٹرافی کے دو کوارٹر اور دو سیمی فائنل کھیلے جب کہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے دو سیمی فائنل کھیلے۔ دیکھا گیا ہے کہ آسٹریلیاکسی ایونٹ میں اچھا کھیلے یانہیں لیکن ناک آؤٹ میں پہنچتے ہی جیسے آسٹریلوی کھلاڑیوں میں بجلی بھر جاتی ہے۔حالیہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھی ایسا ہی ہوا۔
آسٹریلوی ٹیم نےانگلینڈ سے جس طرح شکست کھائی تھی کوئی نہیں کہہ سکتا تھاکہ یہ ٹیم عالمی چیمپئین بنے گی۔ پوائنٹس بھی کم رن ریٹ بھی منفی۔ لیکن پھر کنگروز ایسا اٹھے کہ کوئی مقابل نہ آسکا۔
رن ریٹ بھی اچھا کیا ،پوائنٹس بھی بڑھائے او ر سیمی فائنل میں پہنچ گئے۔ سیمی فائنل میں ٹورنامنٹ کی فیورٹ ٹیم پاکستان کو شکست دی۔ گوگہ آسٹریلوی ٹیم بہت زیادہ خوش قسمت بھی رہی۔ دونوں ناک آؤٹ مقابلوں میں آسٹریلیا نے ٹاس جیتا اورپہلے مخالف ٹیم کو بیٹنگ کی دعوت دی۔ اگر آسٹریلیا ٹاس ہار جاتا تو شاید نتیجہ کچھ مختلف نکلتا۔
قومی کھلاڑیوں کو بڑے میچ کھیلنا سیکھنے ہوں گے۔ پریشرسے کیسے بچا جاتا ہے؟ بڑے میچ کا کیا دباؤ ہوتا ہے؟ یہ سب سمجھنا ہوگا۔ حسن علی سے کیچ ڈراپ ہوا لیکن اسے میچ کی شکست کی وجہ قرار دینا درست نہیں ، اس کے بعد بھی میچ باقی تھا ،اگر شاہین آفریدی تھوڑی عقل سے گیند کراتے ۔
ایک ہی لینتھ پر ایک ہی اسپیڈ سے گیند کرکے جس طرح شاہین آفریدی نے چھکے کھائے اس سے ثابت ہوگیا کہ شاہین ڈیتھ اوور کا بولر نہیں ہے، پاکستان سیمی فائنل ہار گیا لیکن پورے ٹورنامنٹ میں عمدہ کھیل کا مظاہرہ کرکے پوری قوم کے دل ضرور جیت لیے۔
قومی ٹیم کو اب روکنا نہیں ،آئندہ سال پھر ورلڈ کپ ہے ۔ بابر کو چاہیے اس کی تیاری ابھی سے شروع کردے۔ کمبی نیشن میں جو کمی دکھائی دے رہی ہے اسے اس ایک سال میں پورا کرے تاکہ2022 میں آسٹریلیامیں ہونے والے ورلڈکپ میں پاکستان کام یابی حاصل کرکے لوٹے۔