پاکستان کرکٹ ٹیم نے تاریخ رقم کردی۔ بابر اعظم کی کپتانی میں قومی ٹیم نے وہ کر دکھایا جو پاکستان کی 75 سالہ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں کسی ٹیم نے نہیں کیا تھا۔
bursa escort,
bursa escort,
gaziantep escort,
gaziantep escort,
gaziantep escort,
erotik hikaye,
erotik hikaye,
erotik erotik hikaye,
sakarya escort,
sakarya escort,
sakarya escort,
konya escort
sikiş izle
porno izle
konulu porno
anal porno
porno izle
malatya escort
porno izle
erotik hikayeler
porno hikaye
رمیز راجہ کی دور اندیشی اور بابر اعظم کی شاندار کپتانی نے ٹیسٹ کرکٹ میں قومی ٹیم کو پہلی بار ہوم گراونڈ پر وائٹ واش کا موقع دیا جو یقیناً ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔ ایسا کرنے کے لئے بابر اعظم اور ٹیم منیجمنٹ نے کتنی سوچ بچار کی ہوگی کتنے منصوبے بنائیں ہوں گے آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ ایسا کارنامہ جو پاکستان کے بڑے بڑے کپتان نہیں کرسکے۔ عبدالحٖفیظ کاردار ہوں یا آصف اقبال، عمران خان جیسے عظیم لیڈر ہوں یا انضمام الحق اور تو اور مصباح الحق کو ٹیسٹ کرکٹ کے سب سے کامیاب کپتان مانا جاتا ہے وہ بھی کبھی ٹیسٹ کرکٹ میں ہوم گراونڈ پر وائٹ واش نہ ہوسکے۔ لیکن یہ اعزاز بابر اعظم کے حصہ میں آیا۔ کیوں کہ وہ دوست بہت اچھے ہیں۔ دوست بھی وہ جو اپنے سے بہتر کو دیکھ کر ان سیکیور محسوس کرے۔
View this post on Instagram
ہر بار میچ ہارنے کے بعد بابر کہتے ہیں ہم نے شکست سے بہت کچھ سیکھا ۔ اب تک جیتنی سیریز اور میچز ہارنے سے بابر نے جوکچھ سیکھا ان تمام تجربات کو یکجا کرکے انہوں نے اس وائٹ واش شکست کو گلے لگایا ۔ وائٹ واش تو اپنی جگہ قومی ٹیم اتنے عرصے سے ٹیسٹ کرکٹ کھیل رہی ہے کبھی ہوم گراونڈ پر مسلسل 4 ٹیسٹ نہیں ہاری تھی لیکن بابر تو عظیم کپتان ہیں انہوں نے یہ اعزاز بھی چٹکی بجاتے ہیں پاکستان کے نام کرا دیا۔
نیشنل اسٹیڈیم کراچی کبھی قومی ٹیم کے لئے مضبوط قلعہ ہوا کرتا تھا۔ پاکستان نے نیشنل اسٹیڈیم میں 46 ٹیسٹ میچز کھیلے اور 23 میں کامیابی حاصل کی۔ 19 میچز ڈرا ہوئے۔ ایک میچ منسوخ ہوگیا۔ صرف 3 میچز میں قومی ٹیم کو شکست ہوئی۔ آخری مرتبہ 2007 میں جنوبی افریقہ نے پاکستان کو نیشنل اسٹیڈیم میں شکست دی تھی۔ یہ بابر اعظم ہی تھے جنہوں نے پورے 15 سال بعد قومی ٹیم کو اس قابل کیا کہ وہ اپنے مضبوط قلعے میں بھی آسانی سے زیر ہوسکے۔
اس شاندار کارکردگی پر ماہرین کہتے ہیں بابر اعظم کے کیرئیر پر داغ لگ گیا ہے۔ لیکن بابر اعظم کہتے ہیں داغ تو اچھے ہوتے ہیں۔ کوئی بھی سیریز ہارنے کے بعد سب سے مزے کی کوچ اور کپتان کی پریس کانفرنس دیکھنے والی ہوتی ہے۔ آج بابر اعظم نے بہت بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے شکست کے ذمہ داری قبول کی۔ لیکن مزے کی بات اس پر ان سے کوئی پوچھ نہیں ہوگی۔ اگر ہم ایک چھوٹے سے دفتر میں بھی کام کریں تو پہلی غلطی پر تنبیہ دوسری پر ڈانٹ اور تیسری غلطی پر شوکاز نوٹس مل جاتا ہے۔ لیکن قومی ٹیم میں اپنی مان مانی کرتے رہیں جسے دل چاہے ٹیم میں جگہ دیں اور جب نتیجہ خراب ہوجائے تو ہم نے شکست سے بہت کچھ سیکھا کا بیان دے کر اگے چلتے بنیں۔
پریس کانفرنس میں بابر سے سوال ہوا محمد رضوان مسلسل ناکام ہیں تو سرفراز کو موقع کیوں نہیں دیا۔ بولے اہم سیریز تھی رضوان اچھی فارم میں تھے اس لئے ان کو موقع دیا۔ سمجھ سے باہر ہے محمد رضوان گزشتہ 10 میچز سے اسٹرگل کر رہے ہیں۔ انکی گزشتہ 12 اننگز مٰیں کوئی پچاس تک نہیں ہے۔ پھر کس بات کی اچھی فارم لیکن رضوان لاڈلہ ہے اس لئے وہ کھیلے گا۔ دوسری جانب فواد کو ڈراپ کرنے پر بابر کہتے ہیں فواد فارم میں نہیں تھا اس لئے ڈراپ کردیا۔ وہی فواد جو 2021 کی ٹیسٹ ٹیم آف دی آئیر کے ممبر تھے۔ صرف آسٹریلیا کی سیریز خراب ہونے پر انہیں ڈراپ کردیا گیا۔ اب ایک ہی ٹیم میں دو کھلاڑیوں کے لئے دو الگ فارمولے کیوں۔ جب فواد چھ اننگز میں پرفارم نہ کرکے ڈراپ ہوسکتا ہے تو رضوان 12 اننگز میں ناکام ہوکر کیوں نہیں ہوسکتا۔
بابر اعظم عظیم بلے باز ہیں اس میں کوئی شک نہیں لیکن وہ بہترین کپتان ہیں یہ کوئی ماننے کو تیار نہیں۔ جو کپتان اپنے بولرز کو ٹھیک طرح سے استمعال نہ کرے اس کی کرکٹ نالج کیا ہوگی۔ لیکن رمیز راجہ کی آنکھ پرپٹی بندھی ہوئی ہے۔ انہیں بابر سے اگے کچھ دیکھتا ہی نہیں۔ جب سب کچھ برباد ہوجائے گا تو پھر چئیرمین بولیں گے غلطیوں سے بہت کچھ سیکھا۔ لیکن ان غلطیوں سے پاکستان کا جو نقصان ہوا اسکا ازالہ کون کرے گا معلوم نہیں۔
بابر بھی چلے جائیں گے اور رمیز راجہ بھی بس یہ ریکارڈز رہ جائیں گے جو ہمیشہ پاکستان کو منہ چڑھاتے رہیں گے۔