رواں سال ستمبر میں ہونے والا ایشیا کپ پاکستان میں ہوگا یا نہیں معاملہ مارچ تک ملتوی ہوگیا۔ ویسے تو بھارت کی ہٹ دھرمی کے بعد یہ ایونٹ پاکستان میں ہونا خاصہ مشکل ہوگیا ہے لیکن پی سی بی کے سخت موقف نے ایشین کرکٹ کونسل اور بھارتی کرکٹ بورڈ کو پریشان ضرور کردیا ہے۔ ایشین کرکٹ کونسل جس کے صدر بھارتی کرکٹ بورڈ کے سیکریٹری جے شاہ ہیں جو بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کے بیٹے ہیں۔ انہوں نے ایشیا کپ کی میزبانی پاکستان کے سپرد کی تھی۔ پی سی بی نے تین فروری کو بحرین میں ہونے والے اجلاس میں یہ ہی بات سامنے رکھی کے جس وقت کونسل نے میزبانی دی کیا اس وقت بھارتی بورڈ کو معلوم نہیں تھا کہ ان کی ٹیم پاکستان نہیں جاسکتی۔ پی سی بی منیجمنٹ کمیٹی کے چئیرمین نجم سیٹھی نے اجلاس میں یہ بھی کہا کہ اب خراب سیکیورٹی کا تو کوئی جواز بچا نہیں۔ آسٹریلیا ، انگلینڈ اور نیوزی لینڈ جیسی ٹیمیں پاکستان کا مکمل ٹور کرچکی ہیں۔ بھارت صرف سیاسی ہتھکنڈے کے طور پاکستان جانا نہیں چاہتا۔
نجم سیٹھی نے ایک بار پھر وہ ہی بات دھرائی جو رمیز راجہ نے کہی تھی۔ اگر بھارت ایشیا کپ کے لئے پاکستان نہیں آئے گا تو پھر سیکیورٹی کے مسائل تو پاکستان کو بھی بھارت جانے میں ہیں پھر پاکستان بھی ورلڈ کپ کے لئے بھارت نہیں جائے گا۔
ایشین کرکٹ کونسل کے اجلاس میں معاملات خاصے گرم رہے۔ ذرائع کا بتانا ہے کہ بھارتی بورڈ کے سیکریٹری نے اجلاس میں پاکستان کے مخدوش معاشی صورتحال کو جواز بناکر کافی شور شرابا کیا اور کہا کہ پاکستان کے پاس کھانے پینے کے پیسے نہیں ہے اتنے بڑا ایونٹ کیلئے سیکیورٹی انتظامات کیسے کرے گا۔
طویل بحث کے بعد بھی ایشین کرکٹ کونسل کے اجلاس میں پاک بھارت بورڈز اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ اونٹ کسی کروٹ نہ بیٹھا تو دیگر ممبران کے جانب سے 2 تجاویز پیش کی گئیں۔ پول میچز پاکستان میں کروائے جاسکتے ہیں، افغانستان اور بھارت، پاکستان اور بھارت کے میچز دوسرے ہاف میں یو اے ای میں کروائے جانے کی تجویز۔ پاکستان افغانستان، کوالیفائر پہلے راونڈ کے میچز پاکستان میں کھیل سکتے ہیں.سیمی فائنل اور فائنل یو اے ای میں کروانے کی تجویز دی گئی ہے۔ میزبانی کیلئے اگر پاکستان ممکن نہ ہوا تو یو اے ای اور قطر میں ایشیاء کپ کروایا جاسکتا ہے۔
پی سی بی کو ایشیا کپ کا معاملہ بہت خوش اصلوبی سے حال کرنا پڑے گا۔ سخت موقف اختیار کرنا اچھی بات ہے لیکن اس سے نقصان زیادہ اور فائدہ بہت کم ہوگا۔ بھارت کبھی بھی پاکستان سے کھیلنے کا براہ راست انکار نہیں کرتا ہمیشہ یہ ہی بولتا ہے کہ حکومت کی کلیرئینس نہیں۔ پاکستان کو بھی سیاسی سوجھ بوجھ کے ساتھ کچھ ایسا ہی موقف اختیار کرنا ہوگا۔ یہ نہ کہے کہ بھارت نہیں آرہا اسلئے ہم بھی نہیں جائیں گے۔ اس بیان سے پاکستان پر پابندیاں لگ سکتی ہیں اور مالی نقصان علیحدہ ہوگا۔ ورلڈ کپ کھیلنے کے لئے قومی ٹیم بھارت نہیں گئی تو اسے 30 ملین ڈالر کا نقصان ہوگا اور ہوسکتا ہے بھارتی بورڈ اپنے لابنگ کرکے بھاری جرمانہ اور پابندی بھی لگوادے۔
ایشیا کپ کے لئے نیونڑل وینیو والا آپشن بہتر رہے گا ، یعنی باقی پورا ایونٹ پاکستان میں بھارت کے میچز نیوٹرل وینیو پر۔ پاکستان اگر بھارت کے بغیر ایشیا کپ کراتا ہے تو اسے بھاری مالی نقصان ہوگا۔ پاکستان کو جتنی آمدنی ہونی چاہیے وہ نہیں ہوگی۔ اس لئے بہتر ہے مارچ کی میٹنگ سے پہلے سری لنکا ، افغانستان، بنگلہ دیش ، متحدہ عرب امارات اور ہانگ کانگ کے بورڈ کے ساتھ لابنگ کرے اور بھارت کو اس آپشن پر تیار کرے کہ بھارت کی میچز نیوٹرل وینیو پر باقی ایونٹ پاکستان میں ہوں گے۔ اور پھر ورلڈ کپ کے لئے بھی قومی ٹیم یہ ہی آپشن دے کے بھارت جانے کے لئے حکومت کی اجازت نہیں ورلڈ کپ میچز نیوٹرل وینیو پر کرائیں جائیں۔ اس طرح ورلڈ کپ کھیلنے کا موقع بھی مل جائے گا اور مالی نقصان بھی نہیں ہوگا۔ ورلڈ کپ میں نہیں جانے سے پاکستان کا صرف نقصان ہی نقصان ہے۔ اور کیا ہی اچھی بات ہو اگر پاکستان ورلڈ کپ جیت کر دنیا کو جواب دے وننگ ٹرافی اٹھا کر قومی ٹیم کا کپتان بولے کہ پاکستان محفوظ ملک ہے تمام ٹیموں کو پاکستان ضرور آنا چاہیے۔ ابھی وقت ہے پی سی بی سوچ لے اور پھر فیصلہ کرے ایشیا کپ کے بعد پاکستان کو چیمپینز ٹرافی کی میزبانی بھی کرنی ہے۔ آئی سی سی بھارت میں ہونے والے ورلڈ کپ میں جو موقف اپنائے گا وہ ہی اسے پاکستان میں ہونے والی چیمپئینز ٹرافی کے لئے بھی اختیار کرنا ہوگا۔