معراج محمد خان پاکستان میں بائیں بازو کےنظریات رکھنےوالوں کے پیرو مرشد تھے۔
انھوں نے سیاست میں اپنے نظریات پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا اور اپنی گرج دار آواز میں ہر دور کے آمر کو للکارتے رہے۔ قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں، سڑکوں پر احتجاج کے دوران لاٹھی چارج سہا اور دھکے کھائے، مگر ملک میں حقیقی معنوں میں عوام کی حکم رانی کی جدوجہد اور غیر طبقاتی نظام کے اپنے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹے۔
ان کے نظریات اور سیاسی جدوجہد کا تذکرہ صحافت میں ہمارے استاد، ادیب اور شاعر احفاظُ الرّحمٰن صاحب نہایت پُر جوش اور خوب صورت انداز سے کرتے تھے۔فیض احمد فیض کا یہ شعر احفاظ صاحب کی ”معراج بھائی“ کے لیے محبّت اور ان کے لیے جذبات کی عکاسی کرتا ہے:
وہ تو وہ ہے تمھیں ہوجائے گی الفت مجھ سے
اک نظر تم مرا محبوبِ نظر تو دیکھو
یوں ہم بھی معراج محمد خان کی شخصیت کے سحر میں گرفتار ہوگئے جن سے کبھی ملاقات تو نہیں ہوسکی، لیکن وہ کسی اہم کتاب کی رونمائی یا کسی تقریب میں شرکت کرتے تو اس کی رپورٹ مع تصویر ضرورشایع ہوتی۔ یوں ان کے خیالات جاننے کا موقع مل جاتا۔
پھر وہ دن بھی آیا جب معراج محمد خان سے فون پر رابطہ ہوا اور گفتگو کا شرف حاصل ہوا۔ ہم ایک مؤقر روزنامے سے وابستہ تھے۔ ہمیں معراج صاحب سے ان کی زندگی کے چند یادگار لمحات دریافت کرنے کے لیے رابطہ کرنے کی ہدایت کی گئی اور ان سے اوّلین رابطہ ہماری ایک خوش گوار یاد بن گئی۔ احفاظ صاحب کا حوالہ دیا، اپنا تعارف کروایا تو نہایت شفیق لہجے اور اپنائیت بھرے انداز میں انھوں نے ہماری خیریت دریافت کی اور کال کرنے کی وجہ بھی جان لی اور چند گھنٹے کی مہلت طلب کی۔ ہمارے دوبارہ رابطہ کرنے پر فرمایا کہ اپنا ای میل ایڈریس بتادیں، کل شام گئے چند واقعات تحریری شکل میں بھیج دوں گا۔ وہ دیکھ لیجیے گا۔ شام کے وقت ہمیں ان کا برقی پیغام بھی موصول ہوگیا۔
ہم نے ان واقعات کو قطع برید کے ساتھ اپنے انداز سے ترتیب دے لیا، ابتدائیہ لکھ کر سرخی ٹکائی اور اشاعت سے قبل انھیں بھیج دیا کہ ایک نظر دیکھ لیں، کوئی کمی بیشی ہو تو بتا دیں۔ دفتر سے فون ملاکر درخواست کی کہ ای میل دیکھ لیجیے گا۔ کہنے لگے، ٹھیک ہے، مگر کل دوپہر کو کال کر لیجیے گا، اگر کوئی بات ہو گی تو فون پر بتا دوں گا۔
اگلے دن ہم نے رابطہ کیا تو اسی شفیق اور نرم لہجے میں ہماری تحریر پر ستائشی کلمات ادا کرتے ہوئے کما ل خوبی سے ہماری اصلاح بھی کردی۔ ہم نے ایک لفظ ”پرچاری “استعمال کیا تھا، معراج صاحب نے کہا، غلطی سے آپ نے لفظ پرچارک کو پرچاری کر دیا ہے، بس اسے درست کر لیجیے، باقی سب آپ نے بہت اچھا لکھا ہے۔
ہمارے لیے وہ ایک مثالی شخصیت تو تھے ہی، مگر اُس روز انھوں نے جس محبت سے ہماری ”اردو دانی“ کا بھرم رکھا، اس نے ہمارے دل میں ان کی وقعت مزید بڑھا دی تھی، لیکن وہ کس قدر پُر وقار اور عالی ظرف انسان تھے، یہ اس وقت کُھلا جب پیشِ نظر تحریر اخبار کی زینت بنی۔ انھوں نے فون پر رابطہ کرکے شکریہ ادا کیا اور حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ہمارے لیےنیک تمناؤں کا اظہار کیا۔
اس تحریر کا ابتدائیہ یہ تھا، ”معراج محمد خان اپنے ضمیر کی عدالت کے فیصلے پر آج بھی اُس ”جرم“ کی سزا کاٹ رہے ہیں جس پر دنیا کی عدالتوں کا نصاب، قانون کی کتاب کا ہر باب کورا ہے، لیکن کیا کیجے کہ باصفا، باکردار اور مزدور دوست سیاست داں معراج محمد خان باضمیربھی ہیں اور یہی وجہ رہی کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں بعض معاملات پر اختلاف کے بعد اپنی وزارت چھوڑی اور بعد میں پیپلز پارٹی سے اپنا راستہ بھی الگ کر لیا۔
طلبا سیاست میں سرگرم رہنے والے سوشلسٹ نظریات کے پرچارک معراج محمد خان نے پیپلز پارٹی کے قیام کے لیے ذوالفقار علی بھٹو کا ان کے دیگر ساتھیوں کی طرح بھرپور ساتھ دیا اور پھر اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے اس جماعت کو منظّم کرنے میں پیش پیش رہے۔ بھٹو صاحب نے انھیں ایک موقع پر اپنا جانشین قرار دیا اور کہا کہ میرے بعد معراج میرے انقلاب کا خواب پورا کریں گے جب کہ جانشین کے طور پر ہی دوسرا نام غلام مصطفیٰ کھر کا لیا تھا۔
قومی سطح پر سیاست کے میدان میں معراج صاحب کی حق گوئی اور جرأت مندی ان کے نظریات کی حفاظت کرتی رہی۔ انھوں نے ہر اس فیصلے سے اختلاف کیا جو پسے ہوئے عوام، غریب اور مزدور طبقے کے لیے مشکلات کھڑی کر سکتا تھا۔“
معراج صاحب کی زندگی کے وہ دو یادگار واقعات یہ تھے۔
”میں طلبا تنظیم سے نکل کر پیپلز پارٹی کا حصّہ بن چکا تھا، پارٹی کا منشور اور ذوالفقار علی بھٹو کی کرشماتی شخصیت اس جماعت کی عوام میں مقبولیت کا باعث بن رہی تھی۔ آج بھی بھٹو صاحب کا نام میں بہت احترام سے لیتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ بڑے آدمی تھے اور اُس وقت دنیا میں انقلابی تبدیلیوں کا سبب بننے والے راہ نماؤں کی جو کاہ کشاں تھی، بھٹو صاحب اس میں شامل تھے، لیکن ان کے بعض فیصلوں سے مجھے شدید اختلاف ہوا۔ ان میں جاگیر داروں کو ٹکٹ دینے، مشرقی پاکستان اور بلوچستان میں فوجی آپریشن اور کراچی میں مزدوروں پر فائرنگ سمیت چند دوسرے معاملات شامل تھے۔“
معراج محمد خان کے مطابق انھوں نے 1972 میں ذوالفقار علی بھٹو کی کابینہ میں اپنی وزارت برائے پبلک افیئرز سے استعفیٰ دے دیا جسے منظور کر لیا گیا۔ استعفے کی کئی وجوہ تھیں جس میں ایک اور وجہ کا اضافہ کراچی میں مزدوروں پر پولیس کی فائرنگ کی صورت میں ہوا۔ وہ بتاتے ہیں،” میرے استعفیٰ دینے سے قبل جون کے مہینے میں کراچی میں محنت کشوں پر فائرنگ کا ایک واقعہ ہو چکا تھا۔ میں نے اس کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور بھٹو صاحب کے سامنے اس پر احتجاج بھی کیا، لیکن دس اکتوبر کو میں نے اپنی وزارت سے استعفیٰ دیا اور سولہ تاریخ کو ایک مرتبہ پھر مزدوروں پر گولیاں برسا دی گئیں۔ شہر کے صنعتی علاقے میں مزدور اپنے حقوق کی خاطر سڑکوں پر نکلے تو پولیس نے فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں متعدد ہلاکتیں ہوئیں جب کہ کئی افراد زخمی ہوئے۔ مجھے اس سے شدید دھچکا پہنچا۔ ان واقعات میں بھٹو صاحب کا ہاتھ نہیں تھا بلکہ اس کی ذمہ دار صوبائی حکومت تھی۔ واقعے سے میرے نظریات اور اصولوں پر ضرب پڑی اور مجھے لگا کہ حکومت سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ درست ہے۔ اس واقعے کے بعد میں کراچی آیا تو جاں بحق اور فائرنگ سے زخمی ہوجانے والے مزدوروں کے گھر جانے کا ارادہ کیا۔ اس پر مجھے چند ساتھیوں نے کہا کہ تمھارا وہاں جانا ٹھیک نہیں۔ وہ سخت اشتعال میں ہیں اور تمھیں ماریں گے، لیکن میں گیا اور اُن کے دکھ میں شریک ہوا۔ آج بھی میں اپنے دل میں اُن مزدوروں کا درد محسوس کرتا ہوں اور مجھے پچھتاوا ہے کہ ہمارے دورِ حکومت میں ایک بدترین واقعہ پیش آیا۔“
اس سانحے کے چند روز بعد یعنی بائیس تاریخ کو بھٹو صاحب نے معراج محمد خان کا استعفیٰ منظور کر لیا اور وزارت کا بارِ گراں ان کے کاندھوں سے اُتر گیا۔ اسی تسلسل میں انھوں نے اپنے لیے خوشیوں بھرے ایک دن کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا۔
”سانحۂ کورنگی کے چند روز بعد مجھے اپنا استعفیٰ منظور کیے جانے کی خبر ملی تو میں نے اپنے سینے سے بھاری بوجھ اُترتا محسوس کیا۔ اس روز میں خود کو نہایت ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا اور بڑے عرصے بعد مجھے بھرپور نیند آئی۔ حقیقت یہ ہے میں وزیر بنایا گیا تھا، یہ میری خواہش نہ تھی اور میں سمجھتا تھا کہ عوامی نمائندے ہونے کے ناتے میں لوگوں کو جواب دہ ہوں۔ میں کہیں جاتا تھا تو عوام اور مزدوروں کے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا تھا، وہ ہم سے پوچھتے تھے کہ ان کے لیے کیا کر رہے ہیں، ان حالات میں جب محنت کشوں اور مزدوروں کا خون بہایا جارہا ہو، فوجی آپریشن ہو رہے ہوں اور پارٹی کے مخلص ساتھیوں کو باہر نکال کر ان کی جگہ وڈیروں اور جاگیرداروں کو لیا جارہا ہو، میں انھیں کیا جواب دیتا۔ اس لیے بہتر سمجھا کہ حکومت سے الگ ہو جاؤں اور ایسا کر کے میرا ضمیر مطمئن ہوگیا۔
یہ تھے وہ واقعات جو معراج صاحب نے بیان کیے۔ جس دن یہ تحریر شایع ہوئی، دوپہر کو موبائل فون کی گھنٹی بجی۔ اسکرین پر ظاہر ہونے والا نمبر نیا تھا، ہم دفتر میں اپنی نشست پر موجود تھے۔ کال ریسیو کی اور سلام کیا تو وہاں سے جواب دیتے ہوئے کہا گیا، ”معراج محمد خان بات کر رہا ہوں۔ عارف صاحب، آپ کا شکریہ ادا کرنا تھا، میں نے ابھی اخبار دیکھا ہے۔ آپ نے بہت اچھا لکھا، مجھے بہت خوشی ہوئی پڑھ کر۔“
معراج صاحب ہمارا موبائل فون نمبر لے چکے تھے، لیکن ان کی جانب سے یہ پہلا براہِ راست رابطہ تھا۔ ان کی آواز کانوں سے ٹکرائی اور ہم نے جی سَر، جی فرمائیے ،کہتے ہوئے فوراً ہی اپنی نشست چھوڑ دی۔ یہ ایک باضمیر، روشن اور اجلے کردار کے مالک سیاست دان کا احترام تھا، ان کی سحر انگیز شخصیت کا رعب تھا جسے ہم نے محسوس کیا ۔ہمارے رفیقِ کار اور دوست اقبال خورشید ساتھ والی کرسی پربیٹھے تھے۔ انھوں نے یوں کال سنتے ہی بے ساختہ ہمیں اپنی کرسی سے اٹھ کر اور کمرے سے باہر نکلتے دیکھا تو حیران ہوئے۔ چند لمحوں بعد جب ہم اپنے چہرے پر خوش گوار حیرت سجائے لوٹے تو انھوں نے سرگوشی کی۔
” کس کی کال تھی، خیریت؟“ اور ہم نے ماجرا بیان کردیا۔
کوچۂ صحافت میں ایک رپورٹر یا مدیر کو کسی سیاست دان، فن کار یا کسی اہم اور مشہور شخصیت کی فون کال موصول ہونا تعجب خیز اور قابلِ ذکر بات نہیں ہے، لیکن وہ معراج محمد خان تھے۔ وہی معراج محمد خان جن کی زندگی کی لفظی جھلکیاں آپ کے سامنے ہیں۔ ایک مثالی شخصیت، مدبر اور حقیقی قائد جو کسی بھی معاشرے کا رول ماڈل ہو سکتا ہے۔