The news is by your side.

سیاسی ڈکاریں اور کراچی کے عوام کی ممکنہ بدہضمی

کونسل کی ممبری نہیں چاہتا، قوم کی لیڈری نہیں مانگتا، کوئی خطاب درکار نہیں۔ موٹر، اور شملہ کی کسی کوٹھی کی تمنّا نہیں۔ میں تو خدا سے اور دوسروں سے بھی صرف ایک “ڈکار “طلب کرتا ہوں۔ چاہتا یہ ہوں کہ اپنے طوفانی پیٹ کے بادلوں کو حلق میں بلاؤں اور پوری گرج کے ساتھ باہر برساؤں۔ یعنی کڑاکے دار ڈکار لوں۔ پر کیا کروں یہ نئے فیشن والے مجھ کو زور سے ڈکار لینے نہیں دیتے۔ کہتے ہیں، ڈکار آنے لگے تو ہونٹوں کو بھیچ لو اور ناک کے نتھنوں سے اسے چپ چاپ اڑا دو۔ آواز سے ڈکار لینا بڑی بد تہذیبی ہے۔

ہم نے خواجہ حسن نظامی کے قلم کی اس شوخی کو سیاسی جماعتوں کے کراچی میں حالیہ احتجاجی مظاہروں سے جوڑ کر دیکھا تو کُھلا یہ کہ عام انتخابی معرکے اور متوقع بلدیاتی انتخاب سے قبل چند ہفتوں پہلے حزبِ اختلاف کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں نیند سے بیدار ہوگئی ہیں، انھوں نے انگڑائی لے کر اپنے اپنے بستر چھوڑ دیے ہیں اور پیٹ بھر کر عوام کا غم کھانے کے بعد اب جلسے جلوس، احتجاجی ریلیوں اور دھرنوں کی شکل میں‌ “سیاسی ڈکاریں” لے رہی ہیں‌۔ اسے وہ اپنا جمہوری حق مانتی ہیں اور عوام پر اپنا حق “جتاتی” ہیں۔

دوسری طرف اقتدار مل جانے کے بعد، اقتدار چھن جانے تک اسمبلی میں سوتے رہنے کے خوگر عوامی نمائندے بھی حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی ان سیاسی ڈکاروں کی زور دار آوازوں سے جاگ اٹھتے ہیں اور اپوزیشن کی اس تکلیف کو کم کرنے کے لیے اسے وہ “چورن” پیش کردیتے ہیں، جسے ہم”معاہدہ” کہتے ہیں۔ اسی طرح کچھ “خطاؤں” پر معذرت اور تعزیت کا چونا پھیر کر کچھ دن کے لیے “شور” سے نجات حاصل کرلی جاتی ہے۔

عروسُ البلاد اور ملک کا تجارتی حب یعنی کراچی اپنے بلدیاتی خدمت گاروں سے محروم ہے۔ لیکن اس بات کو کئی سال نہیں بیت گئے اور ویسے بھی صوبے کی حکم راں جماعت جمہوریت پر یقین رکھتی ہے۔ وہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لیے اپنی “پُرخلوص” کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ وہ باتیں‌ ہیں‌ جو ہم سب جانتے ہیں، لیکن سچ یہ ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ اس کثیر آبادی والے شہر کو مقامی سطح پر وہ نمائندے کب نصیب ہوں گے جو ان کی داد رسی کے ساتھ شہر میں کچرے سے اسٹریٹ لائٹس تک، فراہمی و نکاسیٔ آب سے لے کر پیدائش و اموات تک اسناد کے حصول اور اس جیسے کئی کام کریں گے جن کے لیے کسی بھی جمہوری اور ترقی یافتہ ملک میں عوام کو اراکینِ اسمبلی کے پاس نہیں جانا پڑتا۔ یہ کسی کو نہیں معلوم کہ انتخابات کے بعد نیا بلدیاتی نظام کسی ایک سیاسی طاقت کی خواہشات کا عکس ہو گا یا اس میں ہر طبقے اور گروہ کی نمائندگی کے ساتھ اختیارات اور مالی وسائل کی تقسیم منصفانہ ہوگی۔

کراچی میں سیاسی محاذ پر گرما گرمی اور تندوتیز بیانات کا سلسلہ پچھلے کئی دنوں سے جاری ہے۔ ابھی ایم کیو ایم پاکستان کا احتجاجی مظاہرہ اور اس موقع پر پیدا ہونے والی افسوس ناک صورتِ‌ حال زیرِ بحث ہی تھی کہ نہایت منظّم طریقے سے عوامی مسائل اور بلدیاتی قانون میں ترامیم کے خلاف سڑکوں پر نظر آنے والی جماعتِ اسلامی اور حکومتِ سندھ کے درمیان “معاہدے” کی گونج سنائی دینے لگی۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

یا رب اس اختلاط کا انجام ہو بخیر
تھا ان کو ہم سے ربط مگر اس قدر کہاں

اور یہ بھی شاعر ہی نے کہا ہے جس پر کراچی کی اکثریت کامل یقین رکھتی ہے۔

ترے وعدے پہ جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا

کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

اس ملک کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں، ہمیں کئی معاہدے مل جائیں گے جو آج بھی عمل درۤآمد کے منتظر ہیں۔

تحریکِ‌ انصاف کی بات کی جائے تو وہ سندھ اور بالخصوص کراچی کے مسائل پر بیانات کی حد تک محدود ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان سڑکوں پر نکلی تو نامعلوم کیوں “پٹنا” پسند کیا۔ کچھ عوامی حلقے اسے ہمدردی یا توجہ حاصل کرنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ جماعت تاحال دباؤ کا شکار ہے اور اس کی صفوں میں جو انتشار پیدا ہوا تھا، اسے دور نہیں کیا جاسکا ہے۔ ادھر مصطفٰی کمال کی پاک سرزمین پارٹی اور مہاجر نعرے کے ساتھ آفاق احمد بھی میدان میں ہیں۔ انھیں تو ایک حالیہ بیان کے بعد مختلف سنجیدہ اور باشعور عوامی حلقوں نے تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے۔ فنکشنل لیگ بھی کراچی کے حق میں بڑی سیاسی جماعتوں کا کسی نہ کسی شکل میں ساتھ دے رہی ہے، لیکن پاکستان پیپلز پارٹی بلدیاتی قانون میں من چاہی ترامیم کے ساتھ انتخابات سے قبل ہر وہ حربہ اختیار کرنے کے موڈ میں نظر آتی ہے، جس کا متوقع بلدیاتی الیکشن میں اسے بھرپور فائدہ ہوسکتا ہے۔

شہر کا میئر مہینوں ہوئے سندھ کی حکم راں جماعت کی وجہ سے ہر اس محکمے سے ہاتھ دھوتا گیا اور ایسا ہر اختیار اس کے ہاتھ سے جاتا رہا، جس سے عوام کو ریلیف مل سکتا تھا۔ شہر لاوارث اور عوام بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ بلدیاتی الیکشن کب ہوں گے، اور اس کا انعقاد فقط سیاسی فائدے کے لیے ہو گا یا اس سے عوام کو ریلیف ملے گا، اس بارے میں کچھ نہیں‌ کہا جاسکتا۔

کراچی میں “سیاسی ڈکاروں” کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے، انتخابات کے قریب “سیاسی ٹکروں” میں تبدیل ہو جائے گا۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ اس بار جس طرح لسانی تفریق کو ہوا دی جارہی ہے اور سیاسی مفادات کی تکمیل کے لیے فیصلہ سازی کے عمل میں جس ہٹ دھرمی اور من مانی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے، اس کے نتیجے میں عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔

بلدیاتی بل میں جو ترامیم کی گئی ہیں، ان کے بعد ممکنہ طور پر ٹاؤن میونسپل کونسل کے ارکان میں سے میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب ہوگا۔ میئر کا انتخاب اوپن بیلٹ کے بجائے خفیہ ووٹنگ سے ہو گا۔ بلدیاتی ترمیمی بل 2021ء کے مطابق صوبائی دارُالحکومت کراچی سمیت صوبے کے بڑے شہروں حیدرآباد، سکھر، لاڑکانہ، میرپور خاص، بے نظیر آباد کارپوریشنز ہوں گے، ان شہروں میں تحصیل کے بجائے ٹاؤن سسٹم اور یونین کونسل کی جگہ یونین کمیٹیاں کام کریں گی۔ سندھ میں جو نیا بلدیاتی نظام رائج ہو گا اس میں بلدیہ عظمیٰ کراچی شہر کے بڑے اسپتالوں کے انتظام سے محروم ہو گی اور پیدائش و اموات سمیت تعلیم اور صحّت کے شعبے بھی صوبائی حکومت کے زیرِ انتظام ہوں گے۔

1972ء کی بات ہے جب پیپلز پارٹی کے بانی قائد ذوالفقار بھٹّو نے لسانی بل پر شروع ہونے والے ہنگاموں کے بعد سیاسی راہ نماؤں کے ساتھ دانش وَروں اور اہلِ قلم جن میں‌ صحافی بھی شامل تھے، اسلام آباد مدعو کیا تھا اور بعد میں انھوں‌ نے سندھ کے شہری علاقوں کا دورہ کرکے وہاں کے لوگوں میں پائی جانے والی تشویش اور بے چینی دور کرنے کی کوشش کی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس وقت حالات کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے سیاست دانوں ہی نہیں اہلِ علم و دانش سے بھی رابطہ کرنا ضروری سمجھا تھا اور سب نے سندھ بھر میں‌ یگانگت اور بھائی چارے کی فضا پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔ آج اگر کوئی بھی طبقہ اور گروہ صوبے میں لسانیت کو ہوا دے کر انتشار اور افراتفری پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے تو اسے منہ توڑ جواب دینا ہوگا اور اس کے لیے ہر سیاسی اور سماجی پلیٹ فارم سے کوشش کرنا ہو گی۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں