پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان ہونے والا پنڈی ٹیسٹ ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہوگیا۔ پنڈی ٹیسٹ میں دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں نے دل کھول کر رنز بنائے۔
پنڈی اسٹیڈیم کی بے جان وکٹ پر بولروں کے لئے کچھ نہیں تھا۔ ہر سیریز میں میزبان ملک اپنی طاقت کو دیکھتے ہوئے وکٹ تیار کرتا ہے، اس کے مطابق اپنی منصوبہ بندی کر کے میچ جیتنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کیا منصوبہ بندی تھی، کچھ سمجھ نہیں آیا۔
وکٹ میں نہ اسپن کے لئے کچھ تھا نہ فاسٹ بولر کے لئے۔ اور اتنی ڈیڈ وکٹ پر پاکستان ٹیم چار بولروں کے ساتھ میدان میں اتری۔ آسٹریلوی بولروں کا اتنا دباؤ تھا کہ بالکل ہی بیٹنگ وکٹ بنا دی۔ آسٹریلوی بولر پہلی اننگز میں صرف 3 وکٹ حاصل کرسکے۔ ایک کھلاڑی رن آؤٹ ہوا۔ دوسری اننگز میں تو آسٹریلیا ایک بھی وکٹ نہ لے سکا۔
قومی ٹیم نے دفاعی حکمتِ عملی اپناتے ہوئے دو دن بیٹنگ کی۔ 162 اوورز کھیلے اور 2 اعشاریہ 93 کی اوسط سے صرف 476 رنز اسکور کیے۔ اس پر منیجمنٹ کی سمجھ داری دیکھیں دوسرے دن اننگز ڈیکلیئر کی وہ بھی اس وقت جب آسٹریلیا کو صرف ایک اوور کھیلنے کو ملا۔ مطلب کپتان اور کوچ اتنی سوجھ بوجھ بھی نہیں دکھا سکے کہ اگر آسٹریلیا کو بیٹنگ کروانی ہی تھی تو کم از کم دس سے پندرہ اوور کراتے تاکہ ان کی کچھ وکٹیں حاصل کرنے کی کوشش کی جاسکتی۔ لیکن کوئی حکمتِ عملی سمجھ میں نہیں آئی۔
پہلی اننگز میں چار کھلاڑی آؤٹ ہوئے۔ چوتھے نمبر پربیٹنگ کے لئے فواد عالم کو آنا تھا لیکن نجانے انہیں کیوں نہیں بھیجا گیا۔ ذرائع سے خبر آئی کہ محمد رضوان اور افتخار احمد کو فواد سے پہلے اس لئے بھیجا گیا کہ وہ تیز کھیل کر اسکور کو آگے بڑھائیں گے، لیکن رضوان نے 46 گیندوں پر 29 اور افتخار نے 21 گیندوں پر 13 رنز بنائے۔ اتنا تیز تو فواد عالم بھی کھیل سکتے تھے۔ منیجمنٹ کی فواد سے بے رخی نے ان کے نام ایک ریکارڈ درج کرا دیا۔ فواد عالمی پنڈی ٹیسٹ کے واحد کھلاڑی بن گئے جنہوں نے مکمل ٹیسٹ کھیلا لیکن نہ بیٹنگ کی اور نہ بولنگ اور نہ ہی فیلڈںگ میں کوئی کیچ پکڑا۔
آسٹریلیا کی اننگز میں کچھ ایسی باتیں تھیں جو اس بے جان ٹیسٹ کو تھوڑا دل چسپ بنا رہی تھیں، ورنہ تو سب بورنگ ہی تھا۔ ایک تو یہ کہ آسٹریلیا کا کوئی بھی بیٹسمین اس بے جان وکٹ پر بھی سنچری نہ بنا سکا جہاں پاکستان کی جانب سے 4 سنچریاں بنیں۔ دوسرا نعمان علی کا عمدہ اسپیل۔ نعمان نے بیٹنگ کے لئے سازگار وکٹ پر 6 کھلاڑیوں کو آوٹ کیا۔ یہ ان کے کیریئر کی بہترین بولنگ ہے۔ قومی ٹیم کی دوسری اننگز میں بھی حکمت عملی سمجھ نہیں آئی۔ دونوں بیٹسمینوں کے سنچری بنانے کے بعد لگ رہا تھا کپتان اننگز ڈیکلیئر کرکے آسٹریلیا کو بیٹنگ کی دعوت دیں گے تاکہ میچ میں کچھ تو دلچسپی پیدا ہو لیکن 250 رنز کی برتری حاصل کرنے کے بعد بھی اننگز ڈیکلیئر نہیں کی گئی۔ تھک ہار کر پیٹ کمنز نے ہی درخواست کی کہ بھائی میچ کا نتیجہ نہیں نکلے گا اسے ختم کردیا جائے۔ ورنہ بابر کا تو کوئی ارادہ نہیں تھا اننگز ڈیکلئیر کرنے کا۔
یہ سب تو ٹھیک ہے لیکن اگر اتنی بورنگ ٹیسٹ کرکٹ ہی کھیلنی ہے تو پھر شائقین سے شکوہ نہ کریں۔ آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ سیریز کے تمام میچز ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کا حصہ ہیں۔ اگر ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کا فائنل کھیلنا ہے تو ہوم کنڈیشنز میں میچ جیت کر پاکستان کو اہم پوائنٹس حاصل کرنا چاہییں۔ کراچی ٹیسٹ میں سپورٹنگ وکٹ بنائیں، پانچ مستند بولر کھلائیں اور میچ کا نتیجہ حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ ورنہ ڈرا سے صرف دل کو تسلی رہے گی، ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے پوائنٹس ٹیبل پر کچھ نہیں ملے گا۔