مجھے مطالعہ پاکستان سے اس وقت محبّت ہوئی جب میں نے یہ مضمون پڑھانا شروع کیا۔ یوں سمجھیں کہ پہلے ایک لاتعلقی سی تھی جو ہمدردی میں بدلی اور ہمدردی محبت میں تبدیل ہو گئی۔ مطالعہ پاکستان کا ایک خوب صورت پہلو یہ ہے کہ یہ تاریخ، جغرافیہ، معاشرت، معیشت، آئین سازی اور حالاتِ حاضرہ کا منفرد امتزاج ہے۔
پاکستان کے تعلیمی اداروں میں مطالعہ پاکستان کم از کم نو یا دس سال لازمی سبق کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔ لیکن اتنے طویل تعلق کے باوجود بیچارا مطالعہ پاکستان کسی طالب علم کا پسندیدہ مضمون نہیں بن پاتا۔ اس کے نصاب کے ساتھ جو سلوک محکمۂ تعلیم اور اساتذہ نے کیا اور جو رویہ طلباء اس کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہیں وہ قابلِ تشویش ہے۔
ذرا سوچیں کہ نو سال تک مسلسل ایک مضمون اور وہی عنوانات، ذرا سا ردوبدل اور وہی تفصیلات پڑھانے کی بھلا ضرورت ہی کیا ہے۔ کیا آپ محض 100 نمبروں کا ایک مضمون پڑھانا چاہتے ہیں یا ایک ایسی نسل پروان چڑھانا چاہتے ہیں جو تاریخ و جغرافیہ کا صحیح استعمال جانتی ہو؟ جی میں نے استعمال کا فعل جان بوجھ کر لکھا۔ کیونکہ اب ضرورت محض یہ نہیں کہ پاکستان کی تاریخ اور جغرافیائی خدو خال کا علم ہو۔ لازمی ہے کہ طلبا اس علم کو اپنے اور ملک کے مفاد میں استعمال کرنا بھی جانتے ہوں اور ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے اہل بھی ہوں۔
راقم گزشتہ سات سال سے ایک سرکاری جامعہ میں مطالعہ پاکستان پڑھا رہا ہے۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ اس یونیورسٹی کا میرٹ کافی زیادہ ہے اور داخلہ ملنا اتنا آسان نہیں۔ اس کا مطلب ہوا کہ ہمارے پاس آنے والی طالبات بنیادی طور پر شان دار تعلیمی پس منظر کی حامل ہوتی ہیں۔ روز اوّل راقم کا طالبات سے پہلا سوال ہوتا ہے کہ ‘کوئٹہ اور زیارت کے علاوہ بلوچستان کے کوئی پانچ شہروں کے نام بتائیں’، ‘کراچی، حیدر آباد اور لاڑکانہ کے علاوہ سندھ کے کوئی سے پانچ اضلاع کے نام بتائیں’، یا جنوبی پنجاب کے تین اضلاع کون سے ہیں۔ یقین مانیے ان سات سال میں آج تک کسی ایک طالب علم نے مجھے ان میں سے کسی بھی ایک سوال کا مکمل جواب نہیں دیا۔
یہاں معاملہ یہ نہیں کہ بچّوں کی تعلیمی کارکردگی مشکوک ہے، مسئلہ یہ کہ مطالعہ پاکستان کے نصاب میں طلبا کو محض تحریکِ آزادی، تاریخِ تشکیل پاکستان اور ایک یا دو ابواب جغرافیہ رٹوا کر ہم سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہم نے جذبۂ حبُ الوطنی سے لبریز ایک نسل تیار کر لی ہے۔ جماعت ششم تا جماعت دہم مطالعہ پاکستان کی کوئی بھی کتاب اٹھا کر دیکھ لیں وہی شملہ وفد، وہی گول میز کانفرنس، وہی نہرو رپورٹ، وہی شاطر ہندو کی موقع پرستی، وہی مسلمانوں کی مظلومیت، وہی 73 کا آئین، وہی بے روح نصاب اور اس کے ساتھ وہی بددل طلبا۔
اس سے پہلے بھی مطالعہ پاکستان کے نصاب پر بارہا تنقید ہوتی رہی ہے۔ زیادہ تر ناقدین کا خیال ہے کہ مطالعہ پاکستان میں تاریخ کے اسباق میں اکثر مقامات پر دروغ گوئی اور مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا ہے۔ تقریباً دو دہائیوں قبل کے۔ کے عزیز نے اپنی انگریزی تصنیف ‘دی مرڈر آف ہسٹری’ میں مطالعہ پاکستان کے نصاب میں موجود جن کمزوریوں کی نشان دہی کی تھی ان میں سے بیشتر آج بھی اسی طرح موجود ہیں۔
اگر آپ کو تحریکِ آزادی بار بار پڑھانی ہے تو اس مضمون کا نام مطالعہ پاکستان سے بدل کر تاریخِ تشکیل پاکستان رکھ دیں۔
بے شمار ، لازوال قربانیوں کے بعد الحمدللہ پاکستان بن چکاہے ، اب اس کی تعمیر و ترقی پر توجہ مرکوز کریں۔ طلبا کو بتائیں کہ ٹیکس دینا کیوں ضروری ہے، عام انتخابات میں حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے، قومی کے بعد ضمنی انتخابات کیوں منعقد کروائے جاتے ہیں، قانون کی بالادستی کی کیا اہمیت ہے۔ اس کے ساتھ سیاست میں شخصیت پرستی نہیں اصول پسندی کی اہمیت کو اجاگر کریں، امریکہ میں حکومت کی تبدیلی یا روس کے یوکرائن پر حملے کی صورت میں پاکستان کی سیاست یا معیشت کیسے متاثر ہوتی ہے، کوہِ سلیمان کے وسائل اور مسائل کیا ہیں؟
یہاں یہ وضاحت کرتا چلوں کہ راقم کو تحریک آزادی پڑھانے سے خار نہیں لیکن یکسانیت اور تکرار کے ساتھ عنوانات اس کثرت سے شاملِ نصاب ہیں کہ جب پاکستان کی زراعت، صنعت و حرفت، درآمدات اور برآمدات کے ابواب تک پہنچتے ہیں تو تعلیمی سال بھی ختم ہونے کو ہوتا ہے اور طالبِ علموں ان موضوعات کا بس ایک خاکہ دے دیا جاتا ہے۔ نتیجتاً مطالعہ پاکستان نمبر حاصل کرنے کا ایک ذریعہ رہ جاتا ہے۔ اس مضمون کی اہمیت کو سمجھا ہی نہیں گیا، اس کو محبت سے پڑھایا ہی نہیں گیا اور اسے شوق سے پڑھا بھی نہیں گیا۔ بہرحال مجھے کیا کہ میں بہتری کی کوئی کوشش کروں، مجھے تو تنخواہ مل رہی ہے، اُسی تیس سالہ قدیم نصاب کو پڑھانے کی۔ ویسے بھی نیا نو دن، پرانا سو دن۔