The news is by your side.

شادی سے انکار پر تشدد کا نشانہ بننے والی خدیجہ کو انصاف ملے گا؟

ملک میں‌ ظلم اور ناانصافی کے مختلف واقعات پر انسانی حقوق کی تنظیموں، سماجی راہ نماؤں‌، وکلا برادری اور شوبز حلقوں‌ کی جانب سے شدید ردعمل اور احتجاج کے ساتھ قانون کی بالادستی اور انصاف کی فراہمی کا پُرزور مطالبہ تو کیا جاتا ہے، لیکن کیا کسی کو فوری انصاف ملتا بھی ہے؟

یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہر کسی کے ذہن میں ابھرتا ہے۔ کمسن بچّیوں اور عورتوں سے جنسی زیادتی کے واقعات ہوں، گھریلو ملازمہ پر تشدد کا واقعہ ہو، کسی مرد یا عورت کا معمولی بات پر قتل اور تیزاب پھینکنے کے واقعات ہوں، پولیس ملزمان کی گرفتاری میں ناکام نہ بھی ہو تو تاخیر ضرور کرتی ہے اور جب عوامی دباؤ پر انہیں گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا جاتا ہے تو وہ نظام کی کمزوری اور قانونی سقم کا فائدہ اٹھا کر عدالت سے ضمانت اور رہائی بھی حاصل کر لیتے ہیں۔

گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کرنے والے آزاد ہوکر پھر کوئی واردات کرتے ہیں۔ یوں ہمیں پھر کوئی حوا کی بیٹی اپنی عزّت گنوا بیٹھتی ہے یا ایسے لوگ دوبارہ لوٹ مار اور قتل کی وارداتیں کرنے لگتے ہیں۔

ایسا ہی کچھ فیصل آباد کی طالبہ خدیجہ کے ساتھ ہوا جسے شادی سے انکار پر بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ مرکزی ملزم شیخ دانش، اس کی اہلیہ ماہم اور بیٹی انا علی نے بھی خدیجہ پر تشدد کیا اور ساتھ ہی ویڈیو بھی بنائی۔

متاثرہ طالبہ کی ایک ویڈیو بھی سامنے آئی ہے جس میں اس نے بتایا کہ یہ ویڈیو ملزمہ انا نے بنوائی ہے اور مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس کا مقصد کیا ہے۔ پولیس نے مرکزی ملزم شیخ دانش سمیت چھ افراد کو گرفتار کیا ہے۔ ملزم کو چھے روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا گیا لیکن اس کی بیٹی انا جو اس کیس کی ایک ملزم ہے، اس نے حفاظتی ضمانت کے لیے عدالت سے رجوع کرلیا۔

سوال یہ ہے کہ اس گھناؤنے فعل اور بدسلوکی میں ملوث انا اور دیگر ملزمان کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے یا پھر ان کی ضمانت ہونی چاہیے۔ گزشتہ روز مرکزی ملزم شیخ دانش کی ضمانت کی خبریں سوشل میڈیا پر گردش کررہی تھیں جس پر سماجی راہ نماؤں سمیت فن کار برداری نے آواز بلند کی اور کہا کہ ہمارے ملک میں قانون اور انصاف کے نظام کا حال یہ ہے ایک ملزم کو اتنی آسانی سے ضمانت مل رہی ہے جب کہ اس کی ویڈیوز اس کے قبیح اور غیرانسانی فعل کے ثبوت کے طور پر ہمارے سامنے ہیں۔

ملک کے باشعور اور سنجیدہ طبقات کا کہنا ہے کہ حوا کی بیٹی کی عصمت دری کی جائے یا کسی بھی طرح اس کی تذلیل اور توہین کی جائے، جب تمام ثبوت اور گواہ بھی موجود ہوں‌ تو ایسی ضمانتیں یا کسی بھی قسم کی رعایت بجائے خود ظلم اور ناانصافی کی جڑیں مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ اس فعل میں ملوث ملزمان کب اپنے انجام کو پہنچتے ہیں۔ کیوں کہ حالات یہ ہیں کہ ہماری عدالتوں سے کسی بھی واقعے کے بعد متاثرہ شخص کو انصاف یا تو ملتا ہی نہیں اور اگر انصاف کے تقاضے پورے کر بھی لیے جائیں تو اتنی تاخیر ہوجاتی ہے کہ سائل زندگی کی بازی ہی ہار جاتا ہے یا پھر پھر آخری سانسیں لے رہا ہوتا ہے۔

ہر پاکستانی کا مطالبہ ہے کہ عدالت اس کیس میں‌ خدیجہ کو فوری انصاف فراہم کیا جائے اور عدالت ایسا فیصلہ دے جس کے بعد کسی کو یہ ہمّت نہ ہو کہ شادی سے انکار پر وہ کسی لڑکی کو اس طرح انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنائے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں