The news is by your side.

انگلینڈ نے پاکستان کے خلاف 112 سالہ پرانا ریکارڈ توڑ دیا

پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان پہلا ٹیسٹ میچ تمام خدشات کے باوجود شیڈول کے مطابق آج پنڈی اسٹیڈیم میں شروع ہوگیا۔ انگلش ٹیم کے 7 کھلاڑی بیمار تھے جس کی وجہ سے ٹیسٹ میچ ایک دن اگے بڑھانے پر غور کیا جارہا تھا لیکن آج صبح ڈاکٹرز نے معائنہ کرنے کے بعد تمام کھلاڑیوں کو فٹ کرار دیا۔

انگلش کھلاڑی بیماری سے ایسے فٹ ہوئے کہ پاکستانی بولرز کے چھکے ہی چھڑا دیے۔ پہلی اننگز میں قومی بولرز کی ایسی پٹائی لگائی کہ رنز کے ساتھ ساتھ ریکارڈز کے بھی انبار لگا دیے۔

انگلینڈ نے ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کے پہلے دن سب سے زیادہ رنز بنانے کا عالمی ریکارڈ بنایا اور 112 سال پرانا ریکارڈ توڑ دیا۔ انگلینڈ ٹیسٹ میچ کے پہلے دن 500 سے زائد رنز بنانے والی پہلی ٹیم بن گئی۔

اس سے قبل آسٹریلیا نے 1910 میں جنوبی افریقہ کے خلاف ٹیسٹ کے پہلے روز 494 رنز بنائے تھے۔ انگلینڈ نے آج پاکستان کےخلاف پہلے ہی دن پانچ سو رنز کا ہندسہ عبور کرلیا۔ ایک نہیں، دو نہیں، تین نہیں، چار کھلاڑیوں نے سنچریاں بنائیں۔ اوپنر بین ڈاکٹ اور زیک کرالی نے 233 رنز کی اوپنگ شراکت بنائی۔

بین ڈاکٹ نے 107 اور کرالی نے 122 رنز اسکور کیے۔ اولی پاپ نے 108 رنز بنائے اور ہیری بروکس نے 80 گیندوں پر انگلیند کی تاریخ کی تیسری تیز ترین سنچری اسکور کی۔

انگلش بلے باز قومی بولرز کی ایسی پٹائی کر رہے تھے جیسے کوئی بچہ بولنگ کر رہا ہو، ویسے اگر قومی بولرز کے اعداد و شمار دیکھے جائیں تو وہ سچ میں ٹیسٹ کرکٹ میں بچے ہی ہیں۔ حارث رؤف اور محمد علی اپنا پہلا ٹیسٹ میچ کھیل رہے تھے، فرسٹ کلاس میں بھی دونوں کا کوئی خاص تجربہ نہیں۔

حارث رؤف نے کل 8 فرسٹ کلاس میچزکھیلے ہیں اور محمد علی نے 22 میچز۔ قومی پیس اٹیک کے سب سے تجربہ کار بولر نسیم شاہ ہیں جنہوں نے 13 ٹیسٹ میچز کھیلے ہیں۔ فرسٹ کلاس کا تجربہ ان کے پاس بھی محدود ہی ہے۔

دوسری جانب اسپن کا شعبہ بھی انتہائی کمزور۔ زاہد محمود نے آج ڈیبیو کیا جو ان کے ساتھ دوسرے اسپنر تھے، آغا سلمان جو بیٹنگ آل راونڈر ہیں۔ یعنی کسی بھی بولر کے پاس نہ فرسٹ کلاس کھیلنے کا تجربہ نہ انٹرنیشنل ٹیسٹ میچ کا۔

ٹیسٹ فارمیٹ کرکٹ کا سب سے مشکل فارمیٹ ہے اس میں کرکٹر کی صلاحیتوں کا اصل ٹیسٹ ہوتا ہے اس فارمیٹ میں اگر ایسے ناتجربہ کار کھلاڑی ہوں گے تو یہ ہی ہوگا جو آج ہوا۔ ریکارڈ پر ریکارڈز بنیں گے۔

ویسے پنڈی کی وکٹ اتنی بری نہیں ہے جیسا کہ آج دکھائی دی۔ قائد اعظم ٹرافی کے حالیہ سیزن میں پنڈی اسٹیڈیم میں 6 میچزکھیلے گئے، پہلے میچ میں ٹیم 210 پر آل آؤٹ ہوئی۔ دوسرے میچ میں 188 پر آؤٹ ہوگئی۔ تیسرے میچ میں ٹیم 269 رنز بناسکی۔ چوتھے میچ میں 384 ۔ پانچویں میچ میں278 اور چھٹے میچ میں 185 رنز پر آل آؤٹ ہوگئی۔ ان اعداد و شمار سے تو لگتا ہے کہ پنڈی کی وکٹ بولنگ کو سپورٹ کرتی ہے پھر یہ ایک دم سے بیٹنگ فرینڈلی کیسے ہوگئی۔

ہم آپ کو بتاتے ہیں کیسے  ہوم سیریز میں کپتان اور کوچ اپنی مرضی کی وکٹ تیار کرواسکتے ہیں۔ ہرمیزبان ٹیم اپنے کھلاڑیوں کی اسٹرینتھ کو دیکھتے ہوئے وکٹ تیار کرتی ہے، ہمارے بلے باز انگلش فاسٹ بولرز کو کھیلنے میں ہچکچاتے ہیں اور اسپنرز کو بھی کھیلنے میں اتنے پر اعتماد ہیں اس لئے فل بیٹنگ وکٹ تیار کی گئی۔ لیکن ہمارے کپتان اور کوچ کو اپنا فارمولا بھاری پڑے گیا۔

انگلش ٹیم نے ایسا گیم کھیلا کہ اب ہمارے پاس سنبھالنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ جب ہم بیٹنگ کے لئے آئیں تو انگلینڈ کی طرح جارحانہ بیٹنگ کریں۔ ایسا کریں گے تو ہی میچ بچے گا ورنہ اب پنڈی ٹیسٹ میں قومی ٹیم کی شکست یقینی ہے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں