سانحۂ پشاورکو بیتے تقریباً ایک ہفتہ ہونے کو آرہا ہے لیکن عوام کا غم و غصہ تاحال ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تو دوسری جانب حکومت بھی آسمان دہشت گرد عناصرکے سروں پرگرادینے کے دعوے کرتے نظر آرہی ہے، پھانسیوں کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے، ایم کیوایم کی مدعیت میں لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز کے خلاف کراچی میں ایف آئی آر بھی درج کی جاچکی ہے اورنیشنل ایکشن پلان کمیٹی بھی روزسرجوڑکربیٹھ رہی ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کا حتمی حل بالاخر ہونا کیا چاہیے۔
یہ ساری کاوشیں اپنی جگہ لیکن انتہائی معذرت کےساتھ میں اپنے گذشتہ بلاگ میں عرض کرچکا ہوں کہ اس ساری مشقت کا نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلنے والا کیوں کہ جنہیں ملک اور قوم کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے وہ نا صرف یہ کہ درست فیصلہ کرنے کی اہلیت سے محروم ہیں بلکہ اس تمام معاملے میں ان کی غفلت مجرمانہ ہے۔ پشاور سانحے کے جتنے ذمے دار طالبان ہیں اتنے ہی ذمے دار سابقہ اورموجودہ حکمران بھی ہیں کہ جنہوں نے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے کبھی کچھ نہیں کیا بلکہ پشاور جیسے ہولناک سانحے کے بعد بھی جرات مندانہ فیصلے کرنے کے بجائے آنکھیں بند کرکے ہوا میں تیرچلارہے ہیں۔
میرے بہت سے قارئین کو شاید میری بلند گفتاری گراں گزرتی ہو لیکن خدا بھلا کرے وزیرِداخلہ چوہدری ںثارعلی خان کا کہ جنہوں نے گزشتہ روز ایک انتہائی مضحکہ خیزاعلامیہ جاری کرکے میرے تلخ الفاظ پرمہرِتصدیق ثبت کردی۔
گذشتہ روزپریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ کوئی بھی دہشت گرد اگر کسی ہوٹل سے پکڑا گیا تو ہوٹل کا مالک ذمے دار ہوگا، اگر کسی مکان میں کرائے پر رہ رہا ہوگا تو ذمہ داری مالک مکان پربھی عائد ہوگی لہذا مالکان خود ہی تفتیش کریں۔ عوام اپنے گرد و نواح پر نظررکھیں اگر کوئی شخص پچاس سے زائد روٹیاں لے رہا ہے تو وہ بھی مشکوک ہے۔
ٹی وی اسکرین پرچلنے والے ان ’ٹکرز‘نے راقم الحروف کا بلڈ پریشر ہائی کردیا اوردماغ میں بگولے سے گھومنے لگے۔ وزارت داخلہ کی حیثیت ملک میں ایسے ہی ہوتی ہے جیسے کسی گھر میں ماں کی ، وزارتِ داخلہ ملک اورقوم کے تمام معاملات کی نا صرف یہ کہ نگہبان ہوتی ہے بلکہ مشکل حالات میں قوم کی ہمت بندھانے کا کام بھی اسی وزارت کے ذمے ہوتا ہے لیکن شومئی قسمت کے اس ملک میں باتدبیر وزیروں کا کال ہے اور سب کے سب ٹوٹکوں پر گزارہ کرتے ہیں۔ گزشتہ دورِحکومت کے وزیرِداخلہ کے نزدیک ہرمسئلے کا حل موبائل کے سگنل بند کرنا تھا اور کراچی میں ہونے والے قتل و غارت کی ذمے دار موصوف کے خیال میں بیویاں اورگرل فرینڈز تھیں۔ چوہدری نثارتو رحمان ملک سے بھی دو ہاتھ آگے نکلے انہوں نے عوام میں قومی ذمے داری کا احساس جگانے کی اپنی سی کوشش کرتے ہوئے تفتیش کی ذمے داری بھی عوام کے سرڈال دی اورتو اور روٹیاں خریدنا بھی مشکل کردیا اب تندور جاؤ تو نان بائی کو بتاؤ کہ اتنی روٹیاں کون کھائے گا۔
سمجھ نہیں آتا کہ یہ حکامِ شاہی میڈیا پر کوئی بات کرنے سے پہلے اپنے مسودے کا حتمی جائزہ کیوں نہیں لیتے اگر آپ کو وزارت سےچمٹے رہنے کا اتنا ہی شوق ہے تو اپنے ارد گرد ایک دو مشیر ہی ڈھنگ کے رکھ لیں جو کہ آپ کو نامسائد حالات میں ڈھنگ کا مشورہ تو دیں۔
چوہدری نثار عوام کوجواب دیں کہ ان کو تفتیش کی ذمے داری عوام پر ڈالتے ہوئے شرم نہیں آئی کراچی جیسے شہرمیں جہاں بلاشبہ لاکھوں خاندان کرائے پر رہتے ہیں قانون نافذ ہے کہ ہرکرایہ نامہ بمع کرائے دار کی تفصیلات کے تھانے اور رینجرز آفس میں جمع کرانا لازمی ہے، ایک بار جب مالک مکان یہ کرایہ نامہ جمع کراچکا تو پھر تفتیش کی ذمے دارکس کی بنتی ہے؟۔ اگر پھر بھی ذمے داری عوام کی ہے تو آخر یہ پولیس، رینجرز اور چھبیس کے قریب ایجنسیاں جو داخلی امن وامان کو قئم رکھنے کی ذمے دار ہیں آخر کس لئے ہیں ان سب کو فارغ کرکے بچ جانے والی رقم سے حکومت اپنے گردشی قرضے کیوں ادا نہیں کردیتی؟۔
آپ کا فرمایا بجا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ حکومت، عوام اور فوج کی مشترکہ جنگ ہے لیکن خدارا ہوش کے ناخن لیں عوام آپ کو ٹیکس اسی لئے ادا کرتے ہیں کہ آپ ان کے لئے امن و امان یقینی بنانے کے اقدامات کریں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سانحۂ پشاور کے بعد وزیر داخلہ خیبرپختونخواہ، آئی جی خیبر پختونخواہ، کور کمانڈرپشاور اور وفاقی وزیرِداخلہ اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیتے لیکن اگر نہیں دئیے تو کم سے کم قوم کے زخموں پرنمک تو نہ چھڑکیں۔ یاد رکھئے کہ یہ عوام ابھی آپ سے قیامِ امن کا مطالبہ کررہی ہے لیکن جیسا کہ آپ نے کہا کہ عوام خود تفتیش کرے تو اگر واقعی عوام نے خود تفتیش کرکے خود ہی انصاف کرنا شروع کردیا تو پھرنہ دہشت گرد بچیں گے اور نہ ہی آپ کی وزارت۔
یہ بات تو ہوگئی چوہدری نثار سے اور اگر وہ واقعی میں صاحبِ بصیرت ہیں تو اس تحریر کو نوشتہ دیوار سمجھتے ہوئے مستعفی ہوجائیں اوراب میرے جیسے دہشت گردی کا شکار میرے ہم وطنوں! سانحہ پشاور جیسے ہولناک واقعے کے بعد بھی اگرہم بیدار نہ ہوئے اور اپنے حکمرانوں سے امن قائم کرنے کا اپنا واحد مطالبہ بھی تسلیم نہ کراسکے تو پھرایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ بحیثیت قوم ہم سب کوچلو بھرپانی میں ڈوب کراجتماعی خودکشی کرلینی چاہئیے۔