The news is by your side.

احسان اللہ احسان کا سب سے بڑا جرم کیا ہے

کچھ دن قبل کالعدم تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کی ایک ویڈیو سامنے آئی جس میں اس نے اپنے گناہوں کااعتراف کیا اور اپنے ساتھیوں کو ترغیب دی کہ وہ بھی اس لڑائی کو ترک کرکے ہتھیارڈال دیں۔ اس ویڈیو کا جاری ہونا تھا کہ چہارجانب تہلکہ برپا ہوگیا۔ اورسوشل میڈیا پر صاحبانِ رائے اپنے قلم کی تلواریں سونت کرمیدان میں اتر گئے۔ اک ہجوم تھا جو کہ دادوتحسین کے ڈونگرے برسا رہا تھا تو دوسری جانب مدمقابل کی خواہش تھی کہ احسان اللہ احسان کو فی الفورتختہ دار کے حوالے کیا جائے۔

اس ساری صورتحال میں سوال یہ پیدا ہوا کہ احسان اللہ احسان نے خود تو کوئی جرم نہیں کیا کہ اسے تختۂ دار کی سیر کرائی جائے وہ تو محض طالبان کی ترجمانی کے فرائض انجام دیتا ہے اور اسکولوں پر مسجدوں‘ امام بارگاہوں اور بازاروں میں حملے ‘ خود کش دھماکے‘ اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری جیسے جرائم جن کا اعتراف اس نے خود ویڈیو میں کیا۔ وہ تو اس کے ساتھیوں نے تنظیم کی اعلیٰ قیادت کی ایما پر کیے‘ احسان اللہ احسان تو صرف ذمہ داری لیتا تھا وغیرہ وغیرہ قسم کی تاویلات سے مارکیٹ سج گئی۔

چلیں پہلے پیغمبرِ اسلام حضرت محمد مصطفے ﷺ کے دو واقعات کا ذکر ہوجائے پھر اس کے بعد میں بیان کروں گا کہ احسان اللہ احسان درحقیقت کس جرم کا مجرم ہے اور سزا دینا کیوں ضروری ہے؟۔

سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں ایک سریہ میں بھیجا۔ہم صبح کو حرقات سے لڑے جو جہنیہ میں سے ہے۔ پھر میں نے ایک شخص کو پایا، اس نے لا الٰہ الا اللہ کہا میں نے برچھی سے اس کو مار دیا۔ اس کے بعد میرے دل میں وہم ہوا (کہ لا الٰہ الا اللہ کہنے پر مارنا درست نہ تھا) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کیا اس نے لا الٰہ الا اللہ کہا تھااورتو نے اس کو مار ڈالا؟ میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اس نے ہتھیار سے ڈر کرکہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا تاکہ تجھے معلوم ہوتا کہ اس کے دل نے یہ کلمہ کہا تھا یا نہیں؟۔ پھر آپ صلی اللہ وآلہ علیہ وسلم بار بار یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ میں نے آرزو کی کہ کاش میں اسی دن مسلمان ہوا ہوتا (تو اسلام لانے کے بعدایسے گناہ میں مبتلا نہ ہوتا کیونکہ اسلام لانے سے کفر کے دور کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں)۔

ایک اور واقعہ ہمیں ملتا ہے کہ ’’ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کے لیے اپنے دونوں ہاتھوں کو بلند کیا اور کہا اے میرے اللہ !میری امت، میری امت، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دعا میں بے پناہ روئے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کوفرمایا کہ محمد ﷺکے پاس جاؤ؛ اگرچہ تمہارا رب سب خوب جانتا ہے؛ مگر پھر بھی تم جا کر ہماری طرف سے پوچھو کہ ان کے رونے کا سبب کیا ہے ؟ پس جبرئیلِ امیں علیہ السلام  آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گریہ کا سبب دریافت کیا۔ آپ نے جبرئیل علیہ السلام کو وہ بتلا دیا جو اللہ سے عرض کیا تھا یعنی اس وقت میرے رونے کا سبب امت کی فکر ہے۔ جبرئیل علیہ السلام نے جاکر اللہ تعالیٰ سے عرض کیا تو اللہ نے جبرئیل علیہ السلام کو فرمایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاؤ اور ان کو ہماری طرف سے کہو کہ ’’تمہاری امت کے بارے میں ہم تمہیں راضی اور خوش کردیں گے ، اور تمہیں رنجیدہ اور غمگین نہیں کریں گے‘‘۔

دونوں واقعات آپ نے پڑھ لیے‘ سمجھ بھی آگئے ہوں گے کہ ہم جس نبی ِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلمہ گو ہیں ان کے دل میں ہمارا یعنی امت کا کس قدردرد ہے اور انہیں ایک کلمہ گو بھی کتنا عزیز ہے کہ جس کو وہ نہیں جانتے تھے اور جس نے ان کے سامنے کلمہ اپنی زبان سے ادا نہیں کیا لیکن محض خبر نے آپ کو کئی دن تک رنجیدہ و مغموم رکھا۔

اب آئیے واپس احسان اللہ احسان کی جانب جن کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ خیر سے شاعراورادیب بھی ہیں۔ پاکستان کی تقریباً 96 فیصد آبادی مسلمان ہے اورنادرا کے ریکارڈمیں بھی انہیں مسلمان لکھا اورسمجھا جاتا ہے۔ تحریکِ طالبان پاکستان نے اپنے قیام سے لے کر شمالی وزیرستان میں آپریشن ضربِ عضب تک ان کلمہ گو پاکستانیوں کا بے دریغ خون بہایا ہے اورابھی بھی وہ اپنے کرتوتوں سے باز نہیں آتے‘ پرانی بات تو نہیں ابھی محض تین مہینے قبل فروری کے مہینے میں انہوں نے پاکستان کے چاروں صوبوں کو خون میں نہلادیا اوراپنی اس درندگی پر دانت نکوستے رہے۔ اور جب یہ تحریکِ طالبان اپنے جوبن پر تھی تو ہمیں یاد ہے کہ یہی احسان اللہ احسان صاحب میڈیا پر آیا کرتے تھے اورفخریہ انداز میں اپنے دوستوں کے کرتوتوں کی ذمہ داری لیا کرتے تھے اور اس معاملے میں تاویل یہ پیش کیا کرتے تھے کہ کفارہمارا لہو بہارہے ہیں اس لیے بدلے میں ہم بے گناہ اور معصوم نہتے مسلمان کلمہ پڑھنے والوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں۔

کتنی بار ایسا ہوا کہ ان کے ساتھیوں نے کسی مسجد پر عین اس وقت حملہ کیا جب توحید کے متوالوں اور حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے نام پر جاں نثارنے والے حالتِ سجدہ میں اپنے معبود سے متصل ہوگئے اور مساجد کی دیواروں پر درج کلمہ طیبہ اپنے ہی ورد کرنے والوں کے لہو سے رنگیں ہوگیا۔ احسان اللہ احسان شاعر اور ادیب بھی ہیں اور جب تحریکِ طالبان میں شامل ہوئے تو اس سے پہلے کالج بھی پڑھ رہے تھے تو سرکار کیا بارہویں جماعت تک آپ کو کسی نے نہیں بتایا تھا کہ ’مسلمان وہی ہے جس کے شر سے اس کا مسلمان بھائی محفوظ رہے‘، اور ’ایک انسان کا قتل تمام انسانیت کا قتل ہے‘، یا ’مومن تو وہ ہیں جو صبرکرتے ہیں‘ اور اسی نوع کی بے شمار احادیث جو کہ کسی پانچویں کلاس کے اسکول کے طالب علم کو بھی یاد ہوتی ہیں۔

نہیں صاحب۱ چہرے سے معصومیت کا نقاب اتارئیے اور دنیا کو بتائیے کہ آپ کے ساتھی طاقت کے نشے میں مست ہوکر خوگرانِ توحید کو خاک و خون میں نہلاتے رہے اور آپ ساری دنیا کے سامنے دھڑلے سے اس کی ذمہ داریاں قبول کرکے ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی اپنی امت سے محبت کے جذبے کی توہین کرتے رہے۔ نہ صرف آپ نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی ان کے امت سے رشتے کی توہین کی ہے بلکہ ایک ایسے نبی  کی تعلیمات کو بھی مسخ کیاہے جن کی تعلیمات آج کے مہذب معاشروں کا سرنامۂ حیات ہیں۔ یہ جو آپ نے ایک لاکھ کے قریب پاکستانی مارے ہیں نہ جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی یہ ایک لاکھ لاشے نہیں ہیں بلکہ ایک لاکھ دستاویز ہیں فردِ جرم کی جو قیامت کے روز اللہ کی عدالت میں عائد ہوگی اور مجھے یقین ہے کہ قیامت کے دن آپ کے خلاف مدعی کوئی اور نہیں بلکہ خود پیغبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ہوں گے اور منصف اللہ کی ذات۔

خدا کی قسم! کسی نبی کی اس سے بڑی توہین کوئی نہیں کہ اس کی تعلیمات کو مسخ کرنے کی کوشش کی جائے اور آپ کے کرتوتوں سے تو نہ صرف اسلام بدنام ہوا بلکہ اسلام کے ماننے والوں پر زمین بھی آئے دن تنگ ہوتی جارہی ہے ‘ آپ تو اعتراف کرکے چہرے پر معصومیت کا نقاب ڈال کر بیٹھ گئے ہیں لیکن زیادہ خوش نہ ہوں ‘ آپ بارود سے بات کرتے تھے۔ ہماری زبان ہمارا قلم ہے اورہم قلم کی نوک سے آپ کے چہرے کا نقاب کھینچ کردنیا کو بتائیں گے کہ ’’احسان اللہ احسان سابق ترجمان تحریکِ پاکستان ’توہینِ رسالت ﷺ‘ کا مجرم ہے اور اسے وہی سزا دی جائے جو اس کے حامی سرِ عام دوسروں کو دیتے رہے ہیں‘‘۔


اگرآپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئرکریں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں