The news is by your side.

حق مانگنا توہین ہے حق چھین لیا جائے

آج پاکستان کے مایہ ناز جنگی ہوابازایم ایم عالم کی برسی ہے انہوں نے 1965 کی جنگ میں بھارت کو ایسا زخم دیا تھا کہ جسے بھولنا بھارت کے لئے آسان نہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے جو محیر العقل کارنامہ انجام دیا فضائی جنگ کی تاریخ میں مستقبل قریب میں ایسا کچھ ہونا تقریباً ناممکن نظرآتاہے۔

’’ایم ایم عالم نے 1965 کی جنگ میں بھارت کے 5جہاز ایک منٹ میں تباہ کرئیے جن میں سے چار ابتدائی 30سیکنڈ میں نشانہ بنائے تھے، انہوں نے اس جنگ میں بھارت کے کل 9ہوائی جہاز تباہ کیےتھے‘‘۔

ایم ایم عالم یقیناًپاکستن کے ایک عظیم فرزند ہیں اور انہیں ان کی خدمات کے صلے میں ستارہ جرات سے بھی نوازا گیا لیکن تاریخ کا ایک تکلیف دہ پہلو ایسابھی ہے جسے عوام کی نظروں سے مخفی رکھا گیاہے 1965 کی جنگ کے اس ہیرو کو1971میں میدان میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی صرف اس لئے کہ وہ بنگالی تھے۔

سن 1971 میں بنگال میں علیحدگی کی آگ بھڑک رہی تھی اور آج 2015 میں یہ آگ ملک کے کونے کونے میں پھیل چکی ہے ریاست کے اندر کئی باغی ریاستیں تشکیل پانچکی ہیں جو آئے روز ریاست کی رٹ کو چیلنج کرتی ہیں اور ریاست ان کے سامنے بے بس اور لاچار نظرآتی ہے۔

قدرتی وسائل سے مالامال بلوچستان ملک کا سب سے پسماندہ صوبہ ہے جہاں کے عوام تعلیم اورصحت تودور پینے کے صاف پانی اور دو وقت کی باعزت روٹی سے بھی محروم ہیں اور یہی محرومی ان کے نوجوانوں میں غصے کوجنم دے رہی ہے، گلگت میں بھی ملک کا جھنڈا جلایا گیا کوئی پرانی بات نہیں، قبائلی علاقہ جات نے ملک دشمن عناصرکو پناہ دے کر ریاست کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا اور تو اورحد یہ ہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں فروکش مولانا عبدالعزیز آئے دن ریاست اورآئین کی مخالفت میں لن ترانی کرتے رہتے ہیں۔ ایوب خان کے دور سے آج تک لسانی تنازعات کے شکار کراچی کے عوام بھی شہر مین جاری بے لگام دہشت گردی کی لہرکے سبب خود کو اس مٹی کی سوتیلی اولاد سجھنے لگے ہیں۔

جب بھی اس قسم کی صورتحال پیش آتی ہے تو ریاست کے پاس ایک ہی آسان راستہ ہوتا ہے اور وہ راستہ آپریشن کا ہوتا جس کے محدود مدتی نتائج تو یقیناً بہت عمدہ ہوتے ہیں مزہمتی گروہ کچھ وقت کے لئے اپنی توانائیاں کھو بیٹھتا ہے اور مصنوعی امن قائم ہوجاتا ہے لیکن جیسے ہی ان عناصرکوموقع ملتا ہے وہ دوبارہ سر اٹھاتے ہیں۔

بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں ہمیشہ احتجاجاً تشدد کا راستہ اختیار کرنے والوں سے نمٹنے کا طریقہ کار تو وضح کیا جاتا ہے لیکن شائد کسی بھی صاحب اقتدار نے اس وجہ پرغورکرنے کی کوشش نہیں کی جس کی بناء پرمختلف گروہ مختلف اوقات میں سر اٹھاتے ہیں اورریاست سے ’کچھ‘ چھیننے کی کوشش کرتے ہیں، وہ ’کچھ ‘ کیا ہے یہ بھی جاننے کی زحمت کبھی گوارہ نہیں کی گئی۔

آج کی اس تحریرانہی دو سوالوں کے جواب کی تلاش کے لئے لکھی جارہی ہے۔ اے کاش کے تحریر کے اختتام تک میں ان سوالوں کے جواب حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاؤں تو وقت بے مصرف نہیں جائے گا۔

نفرت ایک ایسی شے ہے جو خون کے رشتوں میں بھی دراڑ ڈال دیتی ہے اور پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ ہمیں نصاب میں بھی نفرت پڑھائی جاتی ہے۔ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے، ہندؤوں نے ہمارے اجداد کا خون بہایا، ، ہماری عورتوں کی عصمت دری کی وغیرہ وغیرہ۔

میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ ایم ایم عالم 1971 میں بھی ہیرو ہوتا اگر’بنگالی‘نہ ہوتا کتنا اچھا ہوتا کہ اس جنگ کی بنیاد کچھ بھی ہوتی لیکن نفرت نہ ہوتی لیکن کیسے نہ ہوتی ، تاریخ شاہد ہے کہ انسان اپنے حقوق کے معاملے میں خوددار واقع ہوا ہے اور حقوق اگر صلب کرلئے جائیں تو پھر انسان مزاہمت پراترآتا ہےغاصب سے نفرت کی دل میں آبیاری کرتا ہے۔ اگر ریاست سمجھ داری سے کام لے تو وہ عوام کے جائز مطالبات تسلیم کرکے معاملے کو تصادم کی جانب جانے سے روک سکتی ہے لیکن حیف صد حیف کہ ریاست نے کبھی بھی سمجھ داری سے کام نہیں لیا اور نفرتیں بڑھیں اوربڑھیں اوربڑھیں۔

ہمارے ملک کو قدرت نے علامہ اقبال کے بعد ایک اور حکیم دیا جو ہمارے بے رخی کے سبب جنون میں مبتلا ہوگیا اور اسی حالتِ جنوں میں اس نے نوجوانوں کو ایک سبق دیا۔

تاریخ نے قوموں کویہی درس دیا ہے
حق مانگنا توہین ہے حق چھین لیا جائے

جون ایلیاء

ساری جنگ حقوق کی ہے ریاست کا کام تھا کہ وسائل کی مناسب تقسیم کرتی، بنیادی ضروریات کی تکمیل لازمی بناتی اور جس کا جو حصہ تھا وہ اسے دیا جاتا لیکن افسوس ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اورجب تک یہ اس جانب توجہ نہیں دی جائے گی۔ نفرتوں کی یہ تجارت اور حقوق کی یہ چھینا جھپٹی جاری رہے گی اور مملکتِ خداداد پاکستان کی تاریخ خون سے ہی لکھی جاتی رہے گی۔

ہمارے چہرے پرہمارے اپنے ہم وطنوں کا خون ہے اور ہمارے دامن ہمارے اپنے گھرکی آگ سے جھلس رہے ہیں اگرآج بھی زبان، مذہب اورمسئلک کی بنیاد پرہم ایک دوسرے کو نفرت کا نشانہ بناتے رہے تو کبھی بھی کسی کے حقوق نہیں دے پائیں گے، ہم آپ اپنے دشمن ہیں اور اپنے ہاتھوں سے اپنی قبرکھود رہے ہیں ایک دن آئے گا کہ ہم صرف تاریخ کا حصہ ہوں گے اوروہ تاریخ ہم نہیں بلکہ دوسرے پڑھ کرسبق حاصل کریں گے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں