The news is by your side.

قیامتِ صغریٰ: ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے

کسی دور میں قیامت سے متعلق پیشن گوئیوں پرمبنی ایک کتاب ’’قیامت ِصغریٰ ‘‘ پڑھی تھی جس میں عدن میں لگنے والی آگ کے پورے خطے میں پھیل جانے کا مبہم سا تذکرہ تھا۔ کتاب 90 کی دہائی کے اوائل میں چھپی تھی اور اب سال 2015 چل رہا ہے۔ عقل حیران ہے کہ ماضی میں کہانی سمجھ کر جس کتاب کو پڑھا تھا حقیقت بن کر سامنے آکھڑی ہوئی ہے۔

مشرقِ وسطیٰ گزشتہ کئی سال سے خانہ جنگی، بادشاہتوں کے خاتنے کی تحریکیں، جمہوریت کا نفاذ اور نجانے کون کونسے مصائب دیکھ رہا ہے اوراب تازہ جفا یہ ہوئی کہ عدن میں آگ لگ چکی ہے اور آثار بتاتے ہیں کہ قیامت قریب ہے۔

یمن میں جاری جنگ قبائل کی آپس کی جنگ ہے لیکن کیونکہ اس خطے سے عالمی مفادات وابستہ ہیں لہذا یہاں ایک چنگاری سے پور پورے نظام پھونک کر رکھ دینا معمول بنتا جارہا ہے۔

قبائل کے تنازعے پر امت مسلمہ کے دو نمائندہ ممالک سعودی عرب اور ایران آمنے سامنے آچکے ہیں اور دنیا بھر سے جس تیزی سے دونوں کی حمایت کے اعلان ہورہے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آگ پھیلے گی اور بہت تیزی سے پھیلے گی۔

یمن کے باشندے تو یقیناً مشکل صورتحال سے دوچار ہیں لیکن اصل مسئلہ تو ہمارا ہے اگر معاملہ یمن کی داخلی سرحدوں تک محدود رہتا تو ہم محفوظ راستہ اپنا سکتے تھے لیکن اب اس جنگ میں دو ایسے ملک آمنے سامنے آنے والے ہیں کہ ہمارے لئے ناجائے رفتن ناپائے ماندن والی صورتحال ہوگی۔ خانہ کعبہ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کا مرکز ہے اور اسی حوالے سے سرزمینِ حجاز مقدس ہے حالانکہ موجودہ حکمران آلِ سعود تقدیس نامی چڑیا سے یکسر نا واقف ہیں لین ہم پاکستانیوں کے دل تو بہرحال حرمین شریفین کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ ی تو رہا عوام کا معاملہ اور بات کی جائے خواص کی سعودی عرب اپنے ریال کی طاقت کے بل بوتے ہمارے داخلی معاملات میں ہمیشہ سے دخیل رہا ہے اور ہم ہمیشہ اس کی حمایت میں کمر بستہ رہے ہیں تو سعودی عرب کی ناراضگی عوام اور خواص دونوں کو ہی منظور نہیں ہے۔

اب رہا ایران تو ہم صوبہ بلوچستان میں ایران کے ساتھ 700 کلومیٹر طویل بارڈر شیئر کرتے ہیں اور بدقسمتی سے قدرتی وسائل سے مالا مال یہ صوبہ گزشتہ کئی دہائیوں سے داخلی اور خارجی شورشوں کا شکار ہے پاکستانی بلوچستان اور ایرانی سیستان دونوں میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو پاکستان اور ایران دونوں سے علیحدگی اختیار کرکے گریٹر بلوچستان تشکیل دینا چاہتا ہے۔

اب ہم پھنسے ہیں گلے تک اگر سعودی عرب کی حمایت کرتے ہیں تو پروسی ملک ایران ناراض ہوجائے گا جس کے ساتھ مجودہ اور مستقبل قریب میں طے ہونے والے بہت سے تجارتی معاملات پر خطے میں ہمارے معاشی مستقبل کا فیصلہ ہوگا۔ اور اگر ایران کی حمایت کرتے ہیں تو نہ صرف یہ کہ مشکل وقت میں ہمارے حکمرانوں کی جائے پناہ ختم ہوجائے گی اور ریالوں کی آمد بھی ختم ہوجائے گی۔

ایسی صورت میں ہمارے ہاس کوئی راستی نہیں رہ جاتا کہ ہم اپنے دونوں دوست ممالک میں ثالث کاکردار ادا کرنے کی کوشش کریں لیکن سلام ہے ان مولویوں پراور سوشل میڈیا پر برسرِ پیکار مجاہدین پر جو کہ یمن اور سعودی عرب کے درمیان تیل کی پیداوار پر ہونے والی جنگ کو خانہ کعبہ پرحملہ قرار دے رہے ہیں اور انہیں شرم بھی نہیں آتی اس امر کا اعلان کرتے ہوئے کہ خانہ کعبہ کی پاسبانی میں اسرائیل (یہود) اور امریکہ (نصارا) ایران کے خلاف سعودی عرب کا ساتھ دے رہے ہیں حالانکہ قرآن کریم کی آیت کے مصداق یہود ونصاریٰ ہمارے کھلے ہوئے دشمن ہیں تو سمجھ نہیں آتا کہ مسلمانوں کے یہ مشترکہ دشمن کعبۃ اللہ کی حرمت کے لئے مسلمانوں کے شانہ بشانہ کیوں کھڑے ہیں۔

پاکستان کے فیصلہ سازوں کو چاہئیے کہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل ان تمام عوامل پر ایک بار غور کرلیں اور ملک و قوم کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کریں۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں