The news is by your side.

قیامتِ صغریٰ: امن سے یمن تک

عرب کے گرم اور مرطوب موسم کی نسپت یمن ایک پررونق خطہ ہے جہاں بارشیں بھی خوب ہوتی ہیں اور سبزہ بھی۔ یمن کا شمار دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں ہوتا ہے اور یہاں کے باشندے پر محنت کش اور آرائش پسند تھے فنونِ لطیفہ یہاں پھلتے پھولتے اور ترقی پاتے تھے، فن تعمیر، زراعت اور صنع گری یہاں کے اہم پیشے تھے۔

یمن میں اسلام کی آمد حضور اکرم کے دور میں ہی ہوگئی تھی لیکن خلافتِ راشدہ میں یہ بلادِ اسلامیہ کاباقاعدہ حصہ بنا۔ خلافتِ راشدہ کا دورمیں اسلامی پرچم یہاں باقاعدہ داخل ہوئے تھے اوراس کےبعد سے تاریخ نے دیکھا کہ اس خطے کو کبھی امن نصیب نہیں ہوا کبھی یہاں کی فضاوٗں خارجیوں کے فتنے کو سونگھا کبھی عباسیوں کے لشکر یہاں اترے کبھی عثمانی آئے تو کبھی زیدیوں نے یہاں اپنا تسلط جمایا۔

آج یمن کی سرزمین ایک مرتبہ پھر جنگ کے شعلوں کی تپش سے جھلس رہی ہے اور حزبِ معمول جنگ کے محرکات داخلی سے زیادہ خارجی ہیں۔ یمن کا جغرافیائی محلِ وقوع ایسا ہے کہ عالمی طاقتیں اس کے معاملات میں مداخلت کیے بغیر باز رہ نہیں سکتیں۔ یہ خطہ عرب کے جنوبی کنارے پر سعودی عرب اور اومان کے درمیان واقع ہے اورخلیج عدن کے ذریعے بحرِ ہند سے متصل ہوکر اسے دنیا کی اہم ترین آبی گزرگاہوں میں سے ایک ہونے کا شرف حاصل ہوتا ہے۔

اب جبکہ دنیا قدیم دور سے نکل کرآج کے جدید دور میں شامل ہوچکی ہے جہاں طاقتور ممالک کمزور ملک کو اپنے مفاد کے لئے جائزو ناجائزطریقے سےاستعمال کرنا اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہیں، دیگر ایشیائی ممالک کی طرح یمن بھی مشرقِ وسطیٰ کے دونوں بڑے کھلاڑیوں (سعودی عرب اور ایران) کے درمیان ایک عرصے سے تختہ مشق بنا ہوا ہے۔

میں نے اپنے گذشتہ آرٹیکل میں کہا تھا کہ ’’سلام ہے ان مولویوں پراور سوشل میڈیا پر برسرِ پیکار مجاہدین پر جو کہ یمن اور سعودی عرب کے درمیان تیل کی پیداوار پر ہونے والی جنگ کو خانہ کعبہ پرحملہ قرار دے رہے ہیں اور انہیں شرم بھی نہیں آتی اس امر کا اعلان کرتے ہوئے کہ خانہ کعبہ کی پاسبانی میں اسرائیل (یہود) اور امریکہ (نصارا) ایران کے خلاف سعودی عرب کا ساتھ دے رہے ہیں حالانکہ قرآن کریم کی آیت کے مصداق یہود ونصاریٰ ہمارے کھلے ہوئے دشمن ہیں تو سمجھ نہیں آتا کہ مسلمانوں کے یہ مشترکہ دشمن کعبۃ اللہ کی حرمت کے لئے مسلمانوں کے شانہ بشانہ کیوں کھڑے ہیں‘‘۔ اس تجزیے پر کئی قارئین نے مجھے اے آر وائی نیوز کی ویب سائٹ اور فیس بک پر اپنی انتہائی قیمتی آراء سے نوازا جس کے لئے میں ان کا بے حد مشکور ہوں۔

جس وقت گذشتہ تحریر لکھی گئی تھی اس وقت پاکستان کے اکابرین مخمصے کا شکار تھے کہ پاکستانی جوانوں کو آلِ سعود کی نصرت کے لئے یمن میں اتارا جائے یا نہیں لیکن اب وزیر اعظم کے دورۂ ترکی اورترکی کی ایران کے ساتھ اس معاملے میں ہونے والی پیشرفت سے صورتحال کچھ واضح ہوئی ہے کہ پاکستان اگر اپنی افواج اس معاملے میں ملوث بھی کرے گا تو وہ سعودی سرحدوں کے اندر محدود رہیں گی اگر حالات موجودہ رخ پر ہی گامزن رہے تو لگتا ہے کہ پاکستان اس معاملے میں درست سمت میں گامزن ہے۔

میں نے کہا تھا کہ پاکستان کو ایران کے ساتھ اپنی جغرافیائی سرحد کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے آج یہ بات پاکستان کی کئی بڑی جماعتوں کے اکابرین کہہ رہے تھے۔ خیر میرا کیاہے میرا تو کام ہی کہنا ہے لوٹتے ہیں اپنے اصل عنوان یعنی قیامتِ صغریٰ کی جانب۔ پیشن گوئی یہ تھی کہ عدن کی گہرائیوں سے برآمد ہونے والی آگ اس پورے خطے میں پھیل جائے گی جس کی تشریح مصنف نے کچھ یوں کی تھی کہ ’شاید عدن کے تیل کے ذخیروں می آگ لگ جائے‘۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ عدن کی آبی گزرگاہ اوریمن کے تیل کے ذخائر اس جنگ کا اصل محرک ہیں۔

People stand on a tank that was burnt during clashes on a street in Yemen's southern port city of Aden

حالیہ جنگ میں عرب لیگ اور او آئی سی کاکردار حزبِ معمول عضو ِمعطل کا سا رہا اور یہ دونوں ادارے یمن اور سعودی عرب کے درمیان کسی بھی قسم کا معاملہ طے کرانے میں ناکام رہے اور اس کی خالصتاً وجہ یہ ہے کہ یمن کے حوثی قبائل کو ایران کی حمایت حاصل ہے اور ایران اور سعودی عرب کی چپقلش کے ثمرات شاید ہم پاکستانیوں سے بہتر کوئی نہیں جانتا ہوگا ان دونوں کی باہمی جنگ گزشتہ تیس سال سے ہماری سرزمین پر لڑی جارہی ہے جس میں ہم پچاس ہزار سے زائد لاشے اٹھا چکے ہیں اور قربانیوں کا یہ سفر جاری ہے لہذا اب قوم کے جذبات عمومی طور پر یہی ہیں کہ ان دونوں کی مخاصمت میں مزید پاکستانیوں کا لہو نا بہے۔

اس جنگ کا اصل محرک جیسا کہ میں نے کہا کہ یمن کی سرحد سے ملحقہ سعودی صوبے میں موجود سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والے کنوئیں ہیں، ایران یمن میں حوثی قبائل کی مدد کرکے انہیں اپنا ممنون بناچکا ہے اور اب انہیں بر سر ِاقتدار لاکر سعودی عرب پر اپنا دباؤ واضح کرنا چاہتا ہے تو دوسری جانب سعودی عرب کو یہ خوف ہے کہ اگر سعودی سرحد سے جڑے یمن میں ایران نواز حکومت قائم ہوگئی تو سرحدی شیعہ اکثریتی صوبہ کہیں بغاوت پر آمادہ نہ ہوجائے۔ واضح رہے کہ بغاوت کی صورت میں سعودیہ کے لئے معاملات سنبھالنا مشکل ہوجائے گا کیونکہ وہاں کے شاہی نظامِ حکومت کے خلاف دبی دبی آوازیں پہلے ہی بلند ہورہی ہیں۔

آج صبح کی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق عدن کی گہرایوں سے برآمد ہونے والی آگ 114 یمنی شہریوں کو چاٹ گئی اور ابھی یہ آگ مزید پھیلے گی۔ آئندہ آرٹیکل میں قیامت جس کا اللہ تعالیٰ نے ہم سب سے وعدہ کررکھا ہے اور مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے انتہائی دلچسپ اور چونکادینے والی چند حقیقتوں سے پردہ اٹھایا جائے گا جن میں سب سے اہم یہ کہ ہے سب جنگ وجدال اور خون ریزی جنگ مشرقِ وسطیٰ میں ہی کیوں جاری ہے؟۔

جاری ہے

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں