پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو بہادری سے دہشت گردوں کے خلاف ڈ ٹہ ہوا ہے اور 50,000 سے زائد سویلین اور فوجیوں کی شہادتوں کے باوجود ہمت و حوصلے پست نہیں ہوے، پاکستان کی افواج پاکستان نے آج سے 10 ماہ پہلے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیاتھا جس میں اب تک ہماری افواج پاکستان نے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے ان گنت کامیابیاں حاصل کی ہیں اور آپریشن ابھی بھی جاری ہے، جسکا سہرا چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف صاحب افواج پاکستان ، اور پوری قوم کو جاتا ہے جو دہشت گردی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوے اور اپنی افواج پاکستان کو سپورٹ کیا. آپریشن ضرب عضب سے قبل طالبان دہشت گردوں کی حمایت یافتہ سیاسی ومزہبی جماعتوں نے بہت کوشش کے طالبان دہشت گردوں کے خلاف کوی اپریشن نہیں کیا جاے اور 50,000 سے زائد پاکستانیوں کے قاتلوں کو کوی محفوظ راستہ دے دیا جاے آپریشن سے قبل مزاکرات کا ڈھونگ رچا کر دہشت گردوں کو چھپنے کا بھی وقت دیا گیا مگر حکومت پاکستان کی حکمران جماعت و دیگر طالبان کے حمایت یافتہ جماعتیں بھی دہشت گردوں کو نہیں سمجھا سکیں،کسی نے دہشت گردوں کو خیبر پختونخواہ میں دفتر کھولوانے کی پیش کش کی ، کسی نے اپنے صوبے پنجاب کے اعلاوہ کہیں بھی دھماکے کرنے کی اجازت اور ایک مزہبی جماعت نے تو دہشت گردوں کو شہید قرار دیا مگر افواج پاکستان نے عوام کے احساس و جزبات کو مدنظر رکھ کر دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن آپریشن کا آغاز کیا جو آج بھی جاری ہے،آپریشن ضرب عضب میں کس طرح چند سیاسی جماعتوں نے افواج پاکستان کے حوصلے پست کرنے کی کوشش کی یہ سب جو پتہ ہے مگر جہاں سیاسی جماعتیں دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن سے ناخوش تھیں وہیں ایک جماعت ایسی بھی تھی جس نے اپنے ملک کی افواج کو زبردست خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ لاکھوں عوام کو اکھٹا کرکے اپنے ملک کی افواج اور شہیدوں کو سلام پیش کیا اس جماعت کے قائد نے اپنے لیٹ فارم سے نہ صرف ایک بار بلکہ کتنی ہی بار افواج پاکستان کے حق میں ریلیاں نکالیں جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔
جب یہ ریلی نکالی گی اس دن رمضان المبارک کا پہلا روزہ تھا اور جولای کی سخت گرمی تھی اس کے باجود اتنی بڑی ریلی کا انعقاد اس بات کا ثبوت ہے کہ اس جماعت کا قائد اور اس کے کارکنان اپنے ملک و افواج پاکستان سے کتنی محبت کرتے ہونگے جو روزے کی حالت میں ہونے کے باوجود اتنی سخت گرمی میں اپنی افواج پاکستان سے یکجہتی کے لیے باہر نکلے۔
مگر افسوس ہماری یادداشت بہت کمزور ہے ہم ماضی بہت جلدی بھلا دیتے ہیں یا کسی کی اچھای کو یاد رکھنا نہیں چاہتے اوپر میں نے جس جماعت اور جس جماعت کی ریلی کا زکر کیا وہ اور کوی نہیں پاکستان کی تیسری و سندھ کی دوسری بڑی جماعت متحدہ قومی موومنٹ ہے جس کے قائد الطاف حسین صاحب ہیں، یہ وہی الطاف حسین صاحب ہیں جنھوں اپنے پلیٹ فارم سے افواج پاکستان سے یکجہتی کے اظہار کے لیے کراچی میں ہزاروں افراد کو اکھٹا کیا اور افواج پاکستان سے محبت کا اظہار کیا مگر اس کے باوجود ان کی حب الوطنی پر شک کرنا اور انکی جماعت و مہاجروں کو ’’بھارتی ایجینسی را کا ایجن‘‘ ہونے کے الزامات لگانا اور پروپیگنڈہ کرنا کہاں کا انصاف ہے ؟ پہلے ملیر کے سابق ایس ایس پی راو انور نے ایم کیو ایم کے 2 کارکنان کی گرفتاری پر پریس کانفرنس کی اور پریس کانفرنس میں ایم کیو ایم پر الزام لگایا کہ ایم کیو ایم ملک دشمن جماعت ہے اور اسکے کارکنان را کے لیے کام کرتی ہے اور جن 2 کارکنان کو انہوں نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران ایک دن قبل کی گرفتاری ظاہر کی انھیں دراصل فروری اور مارچ میں گرفتار کیا گیا تھا جو عدالتی کاغزات میں بھی ریکارڈ پر ہے انکے اس جھوٹ پر دنیا میں اور خاص طور سے پاکستان میں تو کوی نہیں پوچھ سکتا مگر خدا کے یہاں ضرور جواب دینا ہوگا۔
راو انور کی پریس کانفرنس کے میں ایم کیو ایم پر الزامات کی پوچھاڑ کے بعد ایم کیو ایم کا میڈ یا پر آکر جواب دینا بھی ضروری تھا اور انھوں نے یہ ہی کیا پہلے ایم کیو ایم کی رابط کمیٹی نے پریس کانفرنس کے زریعے عوام تک حقایق پہنچاے اور پھر اسکے چند گھنٹوں بعد ایم کیو ایم کے قائد نے اپنے کارکنان سے خطاب میں تاریخی پس منظر سے کچھ تلخ حقایق بیان کیے جو ریکارڈ پر ہیں جنھیں ایم کیو ایم کے قائد نے اپنی تقریر میں دوہراے اور ملیر کے سابق ایس ایس پی راو انور کے ایم کیو ایم پر بھارتی ایجینسی “را” کا ایجینٹ ہونے کے الزام پر اپنے غصے کا اظہار کیا جو انسان کا فطری عمل ہوتا ہے، کیونکہ اگر ہم اچھے بھلے انسان کو بار بار طنز یا پھر اسکو الٹے سیدھے الفاظوں سے پکارینگے یا طعنے دینگے تو بدلے میں بھی طنز یا طعنہ ہی ملے گا نہ ٹھیک اسی طرح جب سے ایم کیو ایم پر بھی پچھلی دو دیہایوں سے مختلف قسم کے الزامات لگاے جارہے ہیں کبھی ان کی جماعت پر جناح پور کے نقشے کا الزام لگایا گیا ,بھارتی ایجینٹ ہونے کا الزام تو کبھی ملک توڑنے کا اور کبھی دہشت گردی بھتہ خوری کا الزام لگایا گیا، کراچی میں میں ہونے والے تمام جرائم کو ایم کیو ایم سے جوڑنے کی کوشش کی گئی اور اب تمام سازشوں میں ہونے کے بعد ایک بار پھر ماضی کی طرح دوبارہ “را” کا ایجینٹ ہونے کا طعنہ دیا گیا جس پر ایم کیو ایم کے قائد نے بھی اپنے خطاب کے دوران الزامات اور طنز و طعنوں کے جوسب میں بھی طعنہ دے دیا مگر یہ بات ہمارے عسکری قیادت کو ناگوار گزری اور الطاف حسین کے خطاب کے چند گھنٹوں بعد علی الصبح ہی آی ایس پی آر کا سوشل میڈ یا پر ٹیوٹ سامنے آیا جس میں انہوں نے الطاف حسین کی تقریر پر تشویش کا اظہار کیا۔
بس آی ایس پی آر کے ترجمان عاصم باجوا صاحب کے ٹیوٹ کے بعد تمام سیاسی جماعتوں نے الطاف حسین کو آڑے ہاتھوں لینا شروع کردیا ہر طرف سے تنقید کے تیر برسنے شروع ہوگئے اور الطاف حسین صاحب کی تقریر کو جواز بناکر انکے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلانے کی بازگشت کی جارہی ہے پنجاب ,بلوچستان,اور کے پی کے میں الطاف حسین صاحب کی تقریر کے خلاف مزمتی قراردادیں بھی پیش کی گئی اور تمام جماعتوں نے اس طرح مزمت کی جیسے تمام جماعتیں دودھ کی دھلی ہیں ,جس طرح الطاف حسین صاحب کے بیان پر مزمتی قرارداد پیش کی گئی,اسی طرح عمران خان صاحب کے خلاف بھی قرار داد کیوں پیش نہیں کی گئی ؟ انہوں نے فوجی جنرلز کے خلاف بے ہودہ زبان استعمال کی ,منور حسن جماعت اسلامی کے سابق امیر نے دہشت گردوں کو شہید اور فوجی جوانوں کو ہلاک کہہ کر افواج پاکستان کے جوانوں کی شہادتوں کی توہیں کی , خواجہ آصف نے قومی اسمبلی کے فلور پر افواج پاکستان کے جنرلز کے خلاف جو زبان استعمال کی وہ بھی ریکارڈپر ہے , تحریک انصاف کے رہنماوں نے دہشت گردوں کو کھل کر سپورٹ کیا ۔
بلوچستان میں اسکولوں میں پاکستان کا قومی ترانہ نہیں پڑھایا جاتا اور پشاور میں آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردوں نے دہشت گردی سے 140 سے زاید بچوں کو درندگی کا نشانہ بنایا گیا کیا کبھی ان لوگوں کے خلاف مزمتی قرارداد پیش کی گئیں ؟یہ دوہرا میعار الطاف حسین کے لیے کیوں؟ مہاجروں ہی کیوں ہر بار غدار یا بھارتی ایجینٹ کیوں کہا جاتا ہے ؟ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین سے قبل مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح پر بھی 1964 میں جنرل ایوب خان کے دور میں بھارتی ایجینٹ ہونے کا الزام لگایا گیا۔
سوال یہاں یہ ہے کہ صرف مہاجروں کو ہی ہر بار غدار وطن یا بھارتی ایجینٹ ہونے کا طعنہ کیوں دیا جاتا ہے ۔ ؟مہاجروں کی ہی حب الوطنی پر کیوں شک کیا جاتا ہے ؟کیا کبھی اس سوال کا جواب مل سکتا ہے کہ مہاجروں کو پاکستان کا شہری کب تسلیم کیا جاے گا ۔ ؟کب تک مہاجروں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاے گا ؟ مہاجروں نے پاکستان کے قیام کے وقت 20 لاکھ جانوں کا نزرانہ پیش کیا جس کے بعد پاکستان وجود میں آیا اور قیام پاکستان کے بعد بانیان پاکستان کی اولادوں نے بھی اس وطن عزیز کے لیے بیش بہا قربانیاں دیں اور آج بھی اپنے حقوق سے محروم ہیں اسکے باوجود انکی حب الوطنی کو شک کی نگاہ سے دیکھنا نوجوان نسل میں تجسس پیدا کررہا ہے . ہمیں ایسے اقدام کرنا چاہیے جس سے اردو بولنے والے مہاجروں کے تحفظات و احساس محرومی ختم ہو نہ کہ انکی احساس محرومی کو مزید بڑھایا جاے۔