The news is by your side.

گھرمیں آگ لگی ہے تو چیخ کیوں رہے ہو؟

کراچی میں گرمی اگلے پچھلے سارے حساب برابرکرنے پرتلی ہوئی ہے ایسا لگتا ہے جیسے سورج نے کراچی کے آسمان میں قریب ہی کہیں ٹھکانہ بنالیا ہے جبھی راتوں میں بھی درجہ حرارت تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو رہا ہے اورتازہ اطلاعات کے مطابق اب تک 300 سے زائد افراد اس قاتل گرمی کے سبب لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ گرمی توخیر اپنے وقت پرختم ہوگی اوراس کا کچھ بھی علاج نہیں کیا جاسکتا ماسوائے احتیاطی تدابیرکے لیکن گزشتہ روز انسانی بے حسی کے کچھ ایسے شاندارمظاہرے دیکھنے کو ملے کہ روح کانپ اٹھی۔

واقعہ کچھ یوں پیش آیا کہ گزشتہ روز شہرکے وسطی علاقے میں 40 سال قدیم ایک بلڈنگ میں شام کے وقت آگ بھڑک اٹھی ، مذکورہ بلڈنگ کے بارے میں گمان کیا جاتا ہے کہ یہ شاید جدید کراچی کا قدیم ترین فلیٹوں کا پراجیکٹ ہے۔ 40 سال یقیناً ایک طویل عرصہ ہے اور عمارت کی ظاہری حالت خستہ ہوچکی ہے۔ آگ بلڈنگ کی ڈکٹ میں لگی جسے نکاسی آب اور ہوا رسی کے لئے بنایا گیا ہے اوروہیں سے تمام فلیٹوں کے بجلی کے تاربھی گزررہے ہیں۔ آگ بھڑکی تو تاروں نے بھی آگ پکڑی جس کے سبب فلیٹوں کی بجلی منقطع ہوگئی۔

عجیب ہنگامی صورتحال تھی جس طرح سے عموماً مڈل کلاس بستیوں میں ہوتا ہے پورا محلہ ہی امڈ آیا اورعمارت کے مکین اپنی مدد آپ کے تحت روزے کی حالت میں آگ سے لڑنے میں مشغول ہوگئے۔ اپنی مدد آپ اس لئے کہ جب آگ بھڑکی تو کئی افراد نے محکمہ فائربریگیڈ کی ہیلپ لائن نمبر 16 پرکال کرنا شروع کی لیکن محکمے کے افراد کی استقامت کو سلام ہے مجال ہے جو کوئی کال ریسیو کرلے۔ ایسے میں محلے کے ایک خضرصورت نوجوان نے پولیس کی ہیلپ لائن پرکال کی اور مدد کی التجا کی اورآفرین ہے محکمہ پولیس پرکہ انہوں نے کمال مستعدی دکھاتے ہوئے فائربریگیڈ والوں کا کوئی خفیہ نمبرڈائل کیا کہ پون گھنٹے تک جس ادارے میں فون تک ریسیو نہیں کیا تھا کچھ ہی دیر میں ان کی گاڑی کے سائرن کی آواز سنائی دینے لگی۔

اسی اثنا میں خضرصورت نوجوان جو کہ مسلسل فائربریگیڈ کا نمبرملارہاتھااس نے احمد علی نامی نمائندے کی روح پرورآواز سننے کا شرف حاصل کیا، جب نوجوان نے تھوڑے درشت لہجے میں ان سے استفسار کیا کہ کال کیوں نہیں ریسیو کی جارہی تھی تو احمد علی صاحب نے انتہائی بدتمیزی اورکمال بے نیازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اطلاع دی کہ ’’چلا کیوں رہے ہو، روزہ ہے کیا، پہنچ رہی ہے گاڑی‘‘۔

فائربریگیڈ آئی آگ بجھی تو اہل محلہ نے سکون کا سانس لیا لیکن ابھی سانس حلق سے نیچے نہیں اترا تھا کہ فائر بریگیڈ والوں نے ایسا انوکھا مطالبہ کیا کہ جو کبھی دیکھا نا کسی نے سنا، انچار ج کا کہنا تھا کہ انہیں ’’کچھ‘‘ جائے ورنہ وہ کے الیکٹرک کے ذریعے اس عمارت کی بجلی بند کرادیں گے اور پھرجب تک ان کی جانب سے کلیئرینس نہیں دی جائے گی اس ستم رسیدہ عمارت کی بجلی نہیں کھلے گی۔

مجمع میں چہہ مگیوئیاں ہونے لگیں کہ محلے کے ایک صوفی منش حضرت نے کہا کہ ان کا مطالبہ خاموشی سے پورا کردیا جائے ورنہ ان کی اطلاع کے مطابق کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آؓباد میں واقع کے ڈی اے فلیٹس میں بھی کچھ عرصہ قبل ایسا ہی معاملہ ہوا تھا اور آج تک بجلی کی ترسیل کا محکمہ انہیں کسی قسم کی خدمات مہیا نہیں کرتا کہ ان کے پاس فائر بریگیڈ حکام کی جانب سے دیا گیا کلیئرینس نہیں ہے، دروغ برگردن راوی!۔ محلے کے چند جوانوں نے فی الفورمتحرک ہوکرایک انتہائی معقول رقم جمع کی اورفائربریگیڈ کے انچارج کے حوالے کی اوروہ سرسے ٹلے تو اہل محلہ نے سکھ کا سانس لیا۔

یہ سارا سانحہ جب گزررہا تھا تو میری آنکھوں کے سامنے کچھ دنوں قبل لاہورمیں ہونے والی آتشزدی کی خبریں گھوم رہیں تھی جن میں ایک ہی گھرکے 6 بچے جھلس کرجاں بحق ہوگئے تھے اور فائر بریگیڈ کا محکمہ خوابِ غفلت میں مبتلا رہا۔

ویسے تو یوں پیسے طلب کرنا بھی درست نہیں لیکن اس سے زیادہ خطرناک حرکت وہ تھی کہ اہل محلہ کال پر کال کررہے تھے اور کوئی فون نہیں اٹھا رہا تھا۔ خدا نخواستہ اہل محلہ اپنی مدد آپ کے تحت آگ کو قابو میں نہ رکھتے تو کراچی میں بھی لاہورایسا ہی کوئی واقعہ پیش آسکتا تھا یا شائد اس سے بھی خطرناک۔

اربابِ اختیار! جہاں آپ دہشت گردوں اوران کی معاشی معاونت کرنے والوں کی سرکوبی کررہے ہیں وہیں سماجی دہشت گردی میں ملوث ان عناصر کی بھی سرکوبھی کی جائے کہ سماج میں اس قسم کے انسانی سانحات رونما نہ ہوں اور فائر بریگیڈ کی ہیلپ لائن پر بیٹھے احمد علی صاحب، ذرا سا خدا کا خوف کیجئے آپ ایک ایسے شخص سے پوچھ رہے تھے کہ چلا کیوں رہے ہو جس کے گھرمیں آگ لگی ہوئی تھی۔ کچھ تو اپنے پیشے کا لحاظ کیجئے وگرنہ

چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں