The news is by your side.

پاکستان کےعوام اپنی محرومیوں کو خود منتخب کرتے ہیں

سندھ اورپنجاب میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ مجموعی طورپربخیروعافیت اختتام پذیرہوگیا ہے اور پہلے مرحلے کی نسبت اس میں خیرپور کی طرح کا کوئی خوں ریز واقعہ پیش نہیں آٰیا۔ یہ ایک انتہائی اچھی بات ہے کیونکہ انتخابات کا مطلب ہے کہ جمہوراپنے لئے اپنا حکمران خود منتخب کررہے اوراگرحکمرانی خون آلود ہوتو پھرتوجمہورکا مستقبل سرخ قلم سے ہی لکھا جائے گا۔

بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے غیر سرکاری نتائج بھی سامنے آچکے ہیں اوربلدیات کے سیاسی مستقبل کی صورتحال تقریباً واضح ہوچکی ہے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی اورایم کیوایم بدستوراپنی حیثیت برقرار رکھے ہوئے ہیں جبکہ پنجاب میں مسلم لیگ ن اورآزاد امیدوار میدان پرچھائے ہوئے ہیں جبکہ تحریک انصاف اس منظر نامے میں کہیں بھی نظرنہیں آرہی جس کی توقع کی جارہی تھی۔

بلدیاتی انتخابات سے کئی ماہ پہلے ملک میں بالعموم اورکراچی میں بالخصوص سیاسی جماعتوں میں موجود کالی بھیڑوں کے خلاف کاروائیوں کا سلسلہ شروع ہوا جس میں سب سے پہلے ایم کیوایم کے سیاسی قبلے نائن زیرو پر رینجرز نے ریڈ کی اور بھاری تعداد میں اسلحہ اور ٹارگٹ کلر گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا گیا، اس موقع پرایم کیو ایم کے سینئررہنما عامرخان کو بھی گرفتار کیا گیا جنہیں بعد ازاں ضمانت پررہا کردیا گیا۔ شہرکے کئی علاقوں سے گرفتار کئے جانے والے افراد نے اپناتعلق ایم کیوایم سے ظاہرکرتے ہوئے ٹارگٹ کلنگ کی کئی وارداتوں کا اعتراف بھی کیا۔

کراچی میں جاری رینجرزآپریشن کے دوران پیپلزامن کمیٹی نامی بھتہ مافیا تنظیم کی کمرتوڑکررکھ دی گئی اور پھرحد ہی ہوگئی کہ پیپلز پارٹی کے سابق وفاقی وزیرڈاکٹرعاصم کوگرفتارکرلیا گیا اوران کے اعترافات نے پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے لئے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے جس کے سبب سابق صدر زرداری کو پس پردہ جانا پڑا اور بلاول بھٹو کو میدان میں اترنا پڑا جن کے لئے ان کے والد نے چند ماہ قبل ہی کہا تھا کہ ابھی بلاول کی سیاسی تربیت مکمل نہیں ہوئی ہے۔

چند روز قبل آئی ایس پی آر کی جانب سے ایک پریس ریلیز جاری ہوئی جس میں حکومت کو نیشنل ایکشن پلان  کے تحت گورننس میں بہتری کی یاد دہانی کرائی گئی جس سے تحریک انصاف اورمسلم لیگ ن کے دیگر مخالفین کو انتہائی زبردست موقع ملا اورانہوں نے حکومتی جماعت کے خلاف میڈیا کے ٹاک شوز میں زبردست زبانی جنگ لڑی۔

لیکن نتیجہ کیا نکلا ؟ ڈھاک کے تین پات! کراچی، حیدرآباد اورمیرپورخاص میں ایم کیو ایم ایک بارپھرواضح برتری لینے میں کامیاب ہوگئی ، سندھ میں پیپلز پارٹی کاراج برقرار(جولوگ بدین کو تبدیلی کا استعارہ قرار دے رہے ہیں انکی خدمت میں عرض ہے کہ بدین میں مرزا گروپ کی فتح کا سبب صرف یہی ہے کہ پچھلے 25 سالوں سے پیپلز پارٹی ذوالفقار مرزا کا مکمل حمایت فراہم کرتی آئی ہے جس کی وجہ سے وہ بدین میں اپنی حیثیت مستحکم کرنے میں کامیاب ہوگئیے ہیں)، اور پنجاب میں تاحال مسلم لیگ ن صفِ اول پرہے اوردوسرے نمبرپرآزاد امیدوارہیں جو کہ حسب روایت حکومتی جماعت میں شمولیت اختیار کریں گے۔

یہاں سوال یہ ہے کہ پاکستان میں کیا تبدیلی آئی ہے، گزشتہ 15 سال سے آزاد میڈیا موجود ہے ، چھ سال سے آزاد عدلیہ ہے ، سیکیورٹی ادارے بھی انتہائی محتاط انداز میں اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ براہ ہورہے ہیں۔ کئی سیاسی جماعتوں کے دامن پر ایسے ایسے داغ لگ گئے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں لگے لیکن عوام کی سیاسی ہمدردیاں آج بھی انہی جماعتوں کے ساتھ ہیں جن کے ساتھ آج سے پندرہ سال قبل تھیں۔

اب یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخریہ سب کیسے ہورہا ہے کیا یہ سیاسی جماعتیں اتنی ہی بری ہیں جتنا میڈیا اوران کے مخالفین بتاتے ہیں، کیا یہ سیاسی جماعتیں عوام کو وہ سب دینے میں کامیاب رہی ہیں جن کے سبب کوئی حکومت جمہوری قرار پاتی ہے اور سب سے اہم سوال کہ آیا پاکستان کا طریقہ انتخاب واقعی شفاف اور جمہوری ہے؟۔

اگر حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے تو جواب بہر صورت نفی آئے گا پھر ایسا کیا ہے کہ جو یہ سیاسی جماعتیں ہمیشہ ہی جیتنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں تو شائد اس کا جواب یہ ہے کہ آج تک  کسی نے پاکستانیوں کویہ نہیں سکھایا کہ جمہوریت کیا ہوتی ہے اور جمہوری ممالک میں عوام کے حقوق کیا ہیں؟ اپنے حقوق سے بے بہرہ عوام جانے انجانے میں اپنے مستقبل کے ساتھ کھلواڑکرتے ہوئے انہی سیاسی جماعتوں کو چنتے ہیں اوریہ بھی شعورنہیں رکھتے کہ انہیں کس طرح ان سیاسی جماعتوں کو مجبور کریں کہ وہ ان اپنے ذمے واجب الادا حقوق سے بری الذمہ ہوں۔

خیبرپختونخواہ کے عوام نے 2013 میں تبدیلی کے لئے ووٹ دیا تاہم انہیں بھی جلد اندازہ ہوگیا کہ تبدیلی صرف چہروں میں آئی ہے ان کا حال آج بھی برا ہے اور مستقبل کا بھی اللہ ہی حافظ ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ عوام جو کہ اس حقیقت کا ادراک تو رکھتے ہیں کہ ووٹ دینا ان کا فرض ہے اب یہ بھی ادراک کرلیں کہ اپنا رہنما منتخب کرنے کا معیار زبان، علاقہ یا برادری نہیں عملی اقدامات ہونے چاہیں۔

ہم یک جنبشِ قلم اس سارے نظام کو اکھاڑکرنہیں پھینک سکتے کہ یا تو آمریت کا دروازہ کھل جائے گا یا پھرطوائف الملوکی کا جہنم اس قوم پروا ہوجائے گا لہذا قوم کی ذمہ داری ہے کہ جسے ببھی چنے اس سے انتہائی سخت لہجے میں مطالبہ کرے کہ ان کے حقوق ادا کئے جائیں  بصورت دیگران کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع کیا جائے کہ وہ راہ راست پرآئیں بصورت دیگر ایسا ہی ہوگا جو حالیہ بلدیاتی انتخابات میں ہورہا ہے کہ ایم این اے، ایم پی ایز کے بھانجے بھتیجے ہی حکومت میں آتے رہیں گے اوربلدیاتی نشستیں جو کہ بالخصوص عام آدمی کا حق ہے عام آدمی اس سے محروم رہے گا۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں