The news is by your side.

اسامہ بن لادن – کل اورآج

آج القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن نیپچون اسپیئر کے نتیجے میں دنیا سے گزرے پانچ برس بیت گئے ہیں۔ سعودی عرب کے بڑے کاروباری خاندان اور اخوان المسلمون سے منسلک شیخ اسامہ نے جب پہلی بارجہادِ افغانستان میں شمولیت کا فیصلہ کیا تو ان کی تنظیم نے انہیں صرف مہاجرین کو ادویات و مالی وسائل فراہم کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ وہ پاکستان میں یہ سارا سامان منصورہ لاھور میں جماعت اسلامی کے حوالے کرکے واپسی کا راستہ دیکھیں۔

اسامہ پاکستان پہنچے تو پھر منصورہ تک محدود نا رہے اور اپنے لیے الگ راہ  منتخب کی۔ یہاں تک کے اخوان المسلمون کو انہیں تنظٰیم سے خارج کرنا پڑا۔ بعد کے برسوں میں ، اخوان کی اعلیٰ قیادت میں سے ایک رہنماء نے غالباً 1989/90 میں ان سے پشاور میں ملاقات کرکے دوبارہ اخوان کا حصہ بننے کی پیشکش کی لیکن تب  تک اسامہ بن لادن اتنے آگے آچکے تھے کہ انہوں نے واپسی کے پیغام کو شکریہ کے ساتھ مسترد کرتے ہوئے  کہا کہ اب ان کا دائرہ کار بالکل مختلف ھے اور وہ پرامن جدوجہد کی طرف نہیں پلٹ سکتے۔

عبد اللہ عزام کے بعد مکتب الخدمت کی سربراہی اسامہ کے پاس آئی اور یوں امریکا کو براہ راست نشانہ بنانے کے منصوبے کا باقاعدہ آغاز ہوا، جس کی کچھ شکلیں ریاض و خبر میں امریکیوں فوجیوں پر حملے ، یمن میں یو ایس ایس کول کو نشانہ بنانے اور پھر گیارہ ستمبر کو امریکہ میں گھس کر کاروائی کی انوکھی مثال قائم کرکے سامنے لائی گئی۔

ان حملوں کو  مہمیز 1993 میں موغا دیشو صومالیہ سے ملی جب اسامہ بن لادن کے پیروکاروں نے  بلیک ہاک ہیلی کاپٹر مار گرائے اور امریکی کمانڈوز جنگ کا ایندھن بنے۔ افغان جہاد میں سویت یونین کی شکست نے جہادیوں کو یقین دلا دیا تھا کہ اب وہ امریکہ سے جنگ کرسکتے ہیں۔

ایسا نہیں تھا کہ اس عرصے میں امریکی خاموش تھے،  انہوں نے 90 کی دھائی سے ہی  اسامہ کو خطرناک شخص قراردے دیا تھا، 1996/97 میں سوڈان و افغانستان پہ امریکی حملے  اسامہ کو نشانہ بنانے کے لیے ہی کیے گئے تھے۔ واقف تو دونوں ہی ایک دوسرے سے خوب تھے لیکن امریکیوں کو قطعا اندازہ نہیں تھا کہ اسامہ ان کے ملک کے اندر بھی انتہائی منظم اورخوفناک حملے کرسکتے ہیں۔

ان حملوں سے متعلق ابتدائی برسوں میں جان بوجھ کر خاموشی اختیارکرنے کے بعد ایک باراسامہ نے فلسطین کے تناظر میں کہا تھا کہ اگر تم تک ہمارے احتجاج  کی آوازیں پہنچتیں تو ہمیں جہازنا بھیجنے پڑتے۔
عراق و افغانستان میں برطانوی افواج کی مداخلت کو جواز بنا کرالقاعدہ نے لندن میں حملے کیے۔ اس کے بعد  اسامہ نے یورپی ممالک کو پیغام دیا تھا کہ اگر وہ خود کو امریکی سربراہی میں لڑی جانے والی اس جنگ سے الگ کرلیں گے تو ان کے خلاف حملے روکے جاسکتے ہیں،  اسامہ نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ہماری حالت اس آدمی جیسی ہے جو سمندرمیں طوفان میں گھرا ہو اور اس پہ تیز بارش ہورہی ہو‘‘ ہمارے پاس کھونے کو کچھ نہیں لیکن تمہارے پاس بہت کچھ ھے۔

یورپ نے یہ پیشکش ہنسی میں اڑا دی البتہ ایک یورپی ملک نے اس پہ مثبت ردعمل دیا تھا، حالیہ عرصے میں پیرس اوربرسلز حملوں نے اس پیشکش کی یاد پھرسے تازہ کردی ہے۔

گزرے کئی برس امت مسلمہ پہ بہت کڑے رہے بلکہ اس کا سلسلہ جاری ہی ہے لیکن  اسامہ کا خیال تھا کہ غلامی سے نجات کی قیمت بہرحال چکانی پڑے گی۔ یہی وجہ تھی کہ اسامہ بن لادن نے عرب بہارمیں عوامی شمولیت کو مثبت سمجھا اور ان کے نائب ڈاکٹرایمن الظواہری نے ان تبدیلیوں کو القاعدہ کے لیے خوش گوار قرار دیا۔

شخصی آزادی مغرب کا فخر ہے، ان کی فکر کا کل حاصل ہے، لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ نے یورپ و امریکہ کی آزادی کے اس تصور کو بری طرح مجروح کیا، عام شہری سے لے کرسربراہانِ مملکت تک کی جاسوسی کی گئی گوانتا ناموبے کی صورت میں مہذب دنیا کے ماتھے پہ کلنک کا ٹیکہ لگا۔  کئی دھائیوں سے وہاں مقیم مسلمان مشتبہ ھوگئے اور ایک انجانا خوف اہل یورپ پہ مسلط ہوا۔

اسامہ بن لادن کے ناقدین کہتے ہیں کہ جو راستہ اسامہ نے اختیار کیا اس کے نتیجے میں اسلامی ممالک تباہی سے دوچارہوئے لاکھوں مسلمان موت کی وادیوں میں گم ہوئے۔ بدقسمتی سے اسلامی  ممالک میں ایسی قیادت کا فقدان ہے جوامتِ مسلمہ کے مسائل کا درست ادراک رکھتی ہو اور اسے عوامی تائید بھی حاصل ہو۔

دو مئی کا دن القاعدہ و امریکہ کے لیے یقینا اہم ہوگا  لیکن بطور پاکستانی اسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس شب ہماری سرحدوں کی پامالی ہوئی اور امریکی ایبٹ آباد آپریشن میں کامیاب ہوئے یہ اور بات ہے کہ حالیہ دنوں میں ایک امریکی صحافی نے اس کاروائی کی بابت کہا ہے کہ ’’اس میں پاکستانی معاونت شامل رہی ہے۔

اسامہ دنیا میں نہیں رہے  لیکن حقیقت تو یہی ھے کہ کل تک قندھار و جلال آباد تک محدود القاعدہ اب کئی خطوں میں مختلف ناموں سے سرگرم ہے اور اب شام و یمن کی صورت میں اسے محفوظ ٹھکانے میسر آچکے ہیں ایسے میں  دولت اسلامیہ کے قیام کے بعد جہادیوں کی ایسی انتہا پسند شکل سامنے آچکی ہے جو اپنی انفرادیت اور خوفناک کاروائِوں کے باعث ماضی کے جہادی گروہوں کو پیچھے چھوڑچکی ہے۔

اسلامی ممالک کے مسائل میں  انصاف کی عدم فراہمی،  تعلیم و شعور کی کمی ، دین کا صحیح فہم نا ہونا، غربت ، کرپشن، فرقہ واریت مغربی یلغار، طاغوت کی حکمرانی اوروہ تنازعات ہیں جن میں سے اکثر کا حل یورپ و امریکا کے پاس ہے جب تک یہ مسائل سنجیدگی حل نہیں کیے جاتے تب تک پرامن دنیا کا خواب ، خواب ہی رہے گا اور بے گناہ دہشت و بربریت کی آگ میں جھلستے رہیں گے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں