پاکستان گزشتہ دو ماہ سے اپنی تاریخ کے مشکل اور متنازعہ ترین دور سے گزررہا ہے ایک جانب تو پنامہ پیپرز میں وزیراعظم کے بچوں کا نام آجانے سے ملک کے سیاسی حالات دگردگوں ہیں تو دوسری جانب گزشتہ ماہ بلوچستان میں ہونے والے امریکی ڈرون حملے میں افغان طالبان کے امیر ملا اخترمنصور کے مارے جانے سے پاکستان کے خلاف اقوامِ عالم میں ایک نیا محاذ بھی کھل گیا ہے، تیسری جانب گزشتہ 4 دہائیوں سے پاکستان کے لیے دردِ سر بنے افغانستان کے ساتھ بھی تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں اور چوتھی جانب پاکستان کا ازلی حریف بھارت نیوکلئیر سپلائرگروپ کا حصہ بننے جارہا ہے جو کہ اسے خطے میں ایک نفسیاتی برتری عطا کرے گا۔ اور یہ سب باتیں تو ایک جانب دوسری طرف پاکستان کے اندربڑھتے ہوئے خلفشار کا عالم یہ ہے کہ آئے دن خواتین کو جلا کرمارا جارہا ہے، خواجہ سراؤں کو قتل کیا جارہا ہے اور خواتین پر’ہلکے پھلکےُ تشدد جیسے بیانات سامنے آرہے ہیں اورسونے پر سہاگے کا کام مولانا حمد اللہ جیسے لوگ ادا کرتے ہیں کہ پہلے ہی ملک میں بات کرنے کے لیے معاملات کم ہیں کیا کہ یہ ایک جھمیلا سامنے آگیا۔ یہ ہیں ہم اور ہمارا ملک اور اس سارے ماحول میں آرہے ہیں بجٹ، اب قارئین خود ہی بتائیں کہ بندہ آخر کس بات کا نوحہ کرے اور کسی مزید پرماتم کرے سو کئی دنوں سے قلم اورتحریر سے ترکِ تعلقات کا شکارتھا لیکن کیا کیا جائے کہ قفس عنصری میں جو ایک بے چین روح مقید ہےوہ سکون سے جینے نہیں دیتی اوراکساتی ہے کہ جگر کے خون میں انگلیاں ڈبو کر قرطاسِ برقی پر کوئی فریاد تحریر کی جائے۔
سب سے پہلے تو بات کرتے ہیں پنامہ پیپرزاوراس پرتشکیل دی جانے والی ’’ٹی او آر‘‘ کمیٹی کا انجام بھی ماضی میں بنائی جانے والی دیگر پارلیمانی کمیٹیوں کی طرح کا ہونے والا ہے یعنی کے نتیجہ ڈھاک کے وہی تین پات، حکومتی ارکان وزیراعظم کے اہل خانہ پر آنچ نہیں آنے دینا چاہتے اوراپوزیشن کی کوشش ہے کہ اس معاملے میں وزیراعظم کے ساتھ اگلی پچھلی کسرنکال لی جائے، وقت گزرتا جارہا اور معاملہ داخلِ دفتر ہوتا جارہا ہے۔۔ میری بات مان لیجئے کہ اس کمیٹی سے کچھ نہیں ہوگا، آپ دوسرے معاملات پرغورکریں۔
افغانستان کے ساتھ پاکستان کا طویل ترین بارڈر ہے جسے ڈیورنڈ لائن کے نام سے جانا جاتا ہے، لائن کے دونوں جانب رہنے والے ایک رنگ، نسل اورزبان کے رشتے سے جڑے ہوئے ہیں اوروہ چاہتے ہیں کہ انہیں سرحدی پابندیوں سے ماورا رکھا جائے اوران کی اس خواہش کی قیمت جتنی پاکستان نے ادا کی ہے وہ اس ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے، اور اب جب پاکستان اپنے ملک میں استحکام دینے کے لیے بین الاقوامی سرحدی قوانین ڈیورنڈ لائن پرنافذ کرنے کی کوشش کررہا ہے تو وہ افغانستان کو ایک آنکھ نہیں بھارہا جس کی قیمت آج پاکستان نے میجرجواد کو سپردِ خاک کرکے ادا کی ہے۔
بھارت نے اپنی پوری توجہ خود کو سپر پاور بنانے اور پاکستان کو خاکم بدہن تباہ و برباد کرنے پرلگائی ہوئی ہے اور اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے وہ ہرجائز اورناجائز وطیرہ استعمال کرنے پرتلا ہوا ہے۔ بھارت کو اس وقت نریندرمودی کی شکل میں اس دور کا چانکیہ میسر ہے جو کہ ہندوستان کی عالمی برادری میں اہم جگہ بنانے میں انتہائی کامیاب خارجی چالیں چل رہا ہے۔ جس کا ثبوت بھارت کی نیوکلئیر سپلائر گروپ میں شمولیت کو کوششیں ہیں جو کہ اگر ممکن ہوگئیں تو یقیناً بھارت کو خطےمیں ایک اہم مقام عطا کریں گی جبکہ پاکستان جو کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے ذریعے خطے کی معاشی شہہ رگ بننے کی کاوش کررہا ہے اسے سبوتاژ کرنے کے لئے بھی بھارت ریشہ دوانیوں مشغول ہے۔
پاکستان جب ایک جانب اپنی تاریخ کے مشکل ترین دورسے گزررہا ہے توہمارے یارِخاص امریکہ نے حسب سابق ایک بارپھر ہماری پشت میں چھرا گھونپتے ہوئے ایران سے آنے والے افغانی ملا منصورکو بلوچستان کے علاقے نوشکی میں ڈرون حملے کا نشانہ بناکر ایک بار پھر اقوامِ عالم کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان مظلوم نہیں بلکہ دہشت گرد ملک ہے جہاں کسی بھی عالمی دہشت گرد کو شناختی کارڈ اورپاسپورٹ باآسانی مل جاتا ہے۔ اب امریکہ سے کیا شکوہ کیجیئے شکایت تو ان اپنوں سے ہے جنہوں نے اس عالمی دہشت گرد کو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ عطا کیے۔ امریکہ کی اس کاوش سے پاکستان جوایک جانب اپنا تشخص علامی برادری میں بہتر کرنے کی کوشش کررہا تھا ایک بارپھر مشکلات کا شکارہوگیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاک فوج اورسویلین حکومت جو اس سارے معاملے طویل عرصے بعد انتہائی سخت موقف اختیار کرتی نظرآرہی ہے، کس طرح ملک کو اس عالمی بھنور سے باہر نکالتے ہیں۔
یہ تو ہوگئیں وہ عالمی سازشیں جو کہ اقوامِ عالم پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک پاکستان کے خلاف روا رکھے ہوئے ہیں اور دوسری جانب رونا یہ ہے کہ گھر کو چار جانب سے آگ لگی ہوئی ہے اور اہل خانہ اپنی جان اور املاک بچانے کے بجائے اس آگ پر ہاتھ تانپ رہے ہیں ، یقین نہیں آتا میری اس بات پرتو آئیے پچھلے کچھ دنوں کی خبریں دیکھتے ہیں۔
وزیردفاع خواجہ آصف نے پارلیمنٹ میں محترمہ شیریں مزاری کو ’’ٹریکٹر ٹرالی کہہ کر چھیڑدیا، اورمولوی حمد اللہ نے دستار کے پیچ کستے ہوئے محترمہ ماروی سرمد کی شلوار کے حوالےسے کوئی نازیبا بات کیا کردی، ساری قوم، سیاستداں اور میڈیا اسی معاملے کے پیچھے پڑگئے جیسے کہ یہ پاکستان کی سنگین ترین مسائل ہیں۔ وزیردفاع صاحب ذرا سرحدوں کی خبر لیجئے ذرا سالارسے پوچھئے کہ قوم مشکل میں ہوتوپھرمشکل کشا لندن میں نہیں ہوا کرتے بلکہ سامنے آکر مردانہ وار حالات کا سامنا کرتے ہیں۔
چلتے چلتے پاکستان کے ایک انتہائی اہم ادارے کا تذکرہ کرتے چلیں جس کا نام اسلامی نظریاتی کونسل ہے، محبوں ذرا تھامو! کہیں زبان پھسل نہ جائے، اس ادارے کے صاحبِ شرف و جاہ حشمت علمائے کرام نے پنجاب میں آںے والے تحفظِ خواتین بل پرکہ خواتین پرہلکا پھلکا تشدد کرنے کا بیان دیا اورفرزندانِ غیرت وحمیت نے ملک میں کئی خواتین جلا کر راکھ کردیں اس بات سے بے خبر کہ یہ آگ صرف ان مظلوم لڑکیوں کے جسموں کو نہیں جلائے گی بلکہ اگر اس قوم نے اپنا قبلہ درست نہ کیا تو ان لڑکیوں کی آہ اس قوم کی نسلوں کا مستقبل جلا کر خاکستر کردے گی کہ بہرحال مظلوم کی آہ عرشِ الہیٰ ہلا دیتی ہے۔