The news is by your side.

پنڈی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب – حصہ سوئم

یہ تینوں تصویریں مال روڈ کی ہیں پہلی 1910 کی، درمیانی ملکہ کے بت کی جوتقسیم کے وقت عین اسی جگہ نصب تھا۔ جو نیچے 1930 کی تصویر میں نظر آرہی ہے۔ انتہائی دائیں جانب ’فلیش مین‘ ہوٹل کی بیرونی دیوار پر’مری روڈ‘ کی نشاندہی ہےجہاں سے آپ موجودہ میٹرو بس کے ٹرمینل کی طرف مڑتے ہیں اوریہاں ایک سنگ میل بھی تھا جس پرمری سے آگے سری نگر تک کے فاصلے لکھے ہوۓ تھے۔ جی ہاں یہ سینٹ پال چرچ والا چوک ہے جس کے ایک طرف آرمی ہاکی اسٹیڈیم ہے اورپنڈی کلب کرکٹ گراونڈ۔ آخری تصویر 1940 کی ہے اور تصویر 1960 کے بعد کی ہے اور موجودہ صورت آپ ہر روز دیکھتے ہیں۔


پنڈی – جو ایک شہرتھا عالم میں انتخاب – حصہ اول


پنڈی – جو ایک شہرتھا عالم میں انتخاب – حصہ دوئم 


pindi 1

مال روڈ راولپنڈی

queen
مال روڈ پر نصب ملکہ وکٹوریہ کا مجسمہ
murree 1
مال روڈ کا ایک اور منظر

لیکن مال کی تصویر میں نقش فریادی بنے دو سینما ہیں۔ پہلا ’اوڈین‘، جو پہلے ’لینس ڈاوٗن‘ تھااورپھر’اوڈین‘ بنا اور دوسرا پلازا جو زبان خاموشی سےداستان اس وقت کی کہتے نظر آتے ہیں جب زمانے کی نظرنہیں بدلی تھی۔ دونوں ہی قدامت کا سارا حسن اور وقاررکھتے ہیں لیکن بند پڑے ہیں۔ اصولی طور پرطے کرلیا گیا ہے کہ ان کو گرا کردو کثیرالمنزلہ کمرشل عمارات تعمیرہوں گی۔

muree 3
پلازہ سینما

جب میں یہاں سے گزرتا ہوں تو درو دیوار پرجو ’اداسی بال کھولے سورہی ہے‘۔ پوچھتی ہے کہ تم تو اس دور عروج کو بھولے نھیں ہوگے جب پلازا میں تم نے ’’بین حر‘‘ اس ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اورنصرت بھٹو کے ساتھ دیکھی تھی جو اس وقت وزیرترقیات تھے اوران کے ساتھ چائےبھی پی تھی۔

muree 2
اوڈین سینما – راولپنڈی

مال کی یہ تصویر ماضی و حال کے ایک فرزندِ سرزمین ’سردارسورن سنگھ‘ کو خراج تحسین پیش کیے بغیرنامکمل ہے اس کی پرانی حویلی کی تصاویر دیکھۓ۔ اس میں “فاطمہ جناح یونیورسٹی 6 اگست 1998 تک قائم رہی۔ مری روڈ پرایک تنگ گلی میں واقع اس کھنڈر ہوتی ویران عمارت کے دو حصے آمنے سامنے ہیں، اوپر سے یہ حصے آپس میں ایک پل کے ذریعے ملادیے گئے ہیں۔ دونوں کے الگ الگ بلند و بالا دروازے ہیں اس کے بعد والی تصویرکچہری چوک پرآج کی فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی کی ہے جو ’سردارموہن سنگھ‘ کی رہائش گاہ تھی اور اس سے پہلے جب پاکستان کا دارالحکومت اسلام اباد منتقل کیا گیا تو اس کوٹھی کو پاکستان کے ایوان صدر کی حیثیت حاصل ہوئی تھی ۔

pindi 2
سردار سورن سنگھ کی حویلی

مجھے یاد ہے کہ ایوان صدربننے سے پہلے یہاں کوئی نہیں تھا اورمیں اس کی چھوٹی سی دیوارپھاند کے اندر چلا جاتا تھا۔ اندردیکھ بھال کرنے والے ہوں گے جو اس کے وسیع باغ اورمحل جیسی عمارت کی حفاظت بھی کرتے تھے، شاید اصل مالک یہ سوچ کر بھارت چلے گئے ہوں گے کہ حالات ٹھیک ہوں گے تو لوٹ آئیں گے۔

اے بسا آرزوکہ خاک شدہ۔۔۔ ’’سنا ہے کہ ایک باروہ آیا تو اس کو اپنے ہی گھر میں داخل نہیں ہونے دیا گیا‘‘۔

تو اے بصارت رکھنے والو! جانو کہ دنیا جائے عبرت اورسراےؑ فانی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ آج اس یونیورسٹی کے پرانے اورنئے کیمپس میں آج کی نوجوان نسل کو بتانے کے لیے کہیں ان محسنوں کے نام کی کوئی یادگاری تختی موجود ہے یا نہیں، جو ویمن یونیورسٹی کا یہ تحفہ انہیں دے کریہاں سے بھی گئے اورجہاں سے بھی۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں