علم بڑی دولت ہے‘ علم حاصل کرو چاہے چین جانا پڑے‘ تعلیم مومن کا زیور ہے۔ جب سے ہوش سنبھالا یہ سنتے پڑھتے رہے لیکن ایک سوال ہمیشہ جواب طلب تھا اور آج بھی ہے۔جو میں نے پڑھا اور پھر پڑھایا۔کیا وہی تعلیم ہے ؟ وہ تو نصاب تھا۔والدین نے مجھے ڈاکٹر بنانا چاہا تھا تو یہی ان کا مقصد تھا۔وہ مقصد حاصل نہ کر سکا تو میں نے معاشیات کا نصاب پڑھ لیا اور’ماسٹر آف آرٹس‘کی سند کے ساتھ ماسٹر ہی بنا۔یہ نہ کرتا توکیا کرتا ؟ نا میں ماہر معاشیات ہوا اورنہ معاشی حالات کو سمجھنے کے قابل ہوا۔
مرے کام کچھ نہ آیا تو ان کا کیا بھلا ہوگا جو مجھ سے پڑھا ہواسبق پڑھنے کے سوا کچھ نہیں کر رہے ہیں۔ایک مشترکہ مقصد کے حصول کی خاطرکہ بس ایک سند مل جائےجو فکر معاش سے آزاد کردے۔ ایک نوکری مل جاے جس سے روزی روٹی چلے ۔تنخواہ ملتی رہےاس کے بعد علم کی ضرورت خلاص اورڈگری صندوق میں۔ فرصت میں بیوی‘ ٹی وی‘ انٹرنیٹ۔ اپنے مشاہدے کی حد تک میں نے سوائے ایک دو گھروں کے سینکڑوں گھروں میں ٹیکسٹ بک کے سوا کتاب نہیں دیکھی۔ میں ادب اور شاعری کی بات نہیں کرتا۔ کسی بھی موضوع پر نہیں‘ چند تعلیم یافتہ کہلانے والے گھرانے ایسے بھی ہیں جہاں اخبار آتا ہے لیکن پڑھا نہیں جاتا۔میں نے پرانے اخبار پڑے دیکھے ہیں جن پرسے ربر بینڈ تک نہیں اتارا گیا حالانکہ گھر میں سب ایم اے‘ ایم ایس سی اور ایم بی اے وغیرہ کہلاتے ہیں ۔
پچاس سال میں درجنوں میڈیکل کالج اور یونیورسٹیاں وجود میں آئے ‘کہنے کو ملک میں ڈاکٹرز بہت کم ہیں لیکن ڈاکٹر بنانے کی فیکٹریاں تو دن رات چل رہی ہیں۔ہر سال ہزاروں نہیں تو سینکڑوں ڈاکٹر مارکیٹ میں آرہے ہیں۔وہ کہاں ہیں؟ لڑکے تو جیسے تیسے قلیل ٓامدنی میں بیگار کر رہے ہیں کیونکہ ان کو گھر چلانا ہے۔تعلیم میں صرف ہونے والی رقم اور پیسے سے وابستہ توقعات کو پورا کرنا ہے لیکن گزشتہ دس سالوں میں مانگ نہ ہونے کی وجہ سے لڑکوں نے اپنا رخ بدل لیا ہے اور کم ہوتے ہوتے ان کی شرح بیس فیصد پر ٓاگئی ہے۔جو اسی فیصد لڑکیان ڈاکٹر بن رہی ہیں وہ کہاں ہیں؟ سرکاری یا پرائیویٹ اسپتالوں کے باہر کتنی اپنا کلینک چلاتی نظر ٓاتی ہیں ؟۔
ایک مشہور شادی دفتر چلانے والی خاتون نے کہا کہ لڑکیاں ڈاکٹر بن رہی ہیں کہ اچھا رشتہ مل جائے گا۔دوسری طرف بر سر روزگار سپوت اور ان کی ماں صرف ڈاکٹر مانگتے ہیں شان بگھارنے کے لیے ۔ چنانچہ میں اپنے حلقہ شناسائی میں ایک درجن ڈاکٹروں کو وہی کرتے دیکھ رہا ہون جو ایک میٹرک انٹر پاس لڑکی شاید بہتر طور پر کرتی کیونکہ اسے گھر میں اس کی تربیت دی جاتی ہے جب کہ ڈاکٹری کی توپ چلانے والیوں کو رعایت ملتی ہے کہ اتنی سخت تعلیم ہے تو ہانڈی چولھا کیسے کرے۔فیشن میں البتہ وہ ان سے چار ہاتھ ٓاگے نظر آئیں گی کہ یہ تو ضرورت ہے بچی کی۔
لیکن مجرم صرف ڈاکٹر نہیں جو اپنی تعلیم کو بھاڑ میں جھونکنے پر مجبور ہیں۔دیگر خالص پروفیشنل تعلیم مثلا ایم ایس سی‘ ایم بی اے کرنے والیوں کا حال مختلف نہیں۔ دوچار سال میں ان کا پڑھا لکھا آؤٹ اف ڈیٹ اور فراموش ہو جاتا ہے ۔ شوہر‘بچے‘سسرال میں سب گم‘ لڑکیوں کی تعلیم کے ضیاع کی ایک اہم وجہ عورت کی کمائی کو باعث شرم جاننے والے شوہر بھی ہیں۔میرے علم میں ایسے تنگ دستی کا شکار خاندان ہیں جہاں شریک حیات ٓامدنی میں برابر کا حصہ ڈال سکتی ہے یا زیادہ مگرمسئلہ تو ناک کا ہے۔ایسا ہی رویہ ّ ‘ کیا ضرورت ہے؟‘ کا ہے‘ کھاؤ پیو موج کرو اوربھول جاؤ تعلیم کو۔
اب یہ بے مقصد ضایع جانے والی تعلیم لڑکیوں تک محدود نہیں۔پاکستان میں کتنی زرعی کالج یونیورسٹیاں ہیں؟ ۔ وہاں سے ایم ایس سی‘ ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سند حاصل والوں کا شہر میں کیا کام؟ ہم ایک زرعی معیشت والے ملک ہیں لیکن کیا کسی نے ان سند یافتگان کو گاؤں میں دیکھا؟ جہاں ستر فی صد آبادی زراعت پیشہ ہے اور ان کو زراعت کے جدید سایسی طریقے بتانا ضروری ہے۔
میرا خیال ہے کہ ان سائنس اور ڈاکٹری پڑھنے والیوں کے لیے وہ علوم کم نہ تھے جو گھر کے اندر بھی بہتری لاتے مثلا نرسنگ‘ انٹیریر ڈیکوریشن‘ فیشن ڈیزایننگ‘ بیوٹیشن‘ ڈائی ٹیشن‘ اپلائیڈ سائکولوجی‘ کوکنگ‘ ایونٹ مینجمنٹ اور جرنلزم وغیرہ اور گھر میں رہ کر آمدنی کی سبیل بھی بنائے جا سکتے تھے اور باقاعدہ پروفیشن کے طور پر اختیار بھی کیے جاسکتے تھے کیونکہ ان میں اپ ڈیٹ رہنا بھی نیٹ کے ذریعے ممکن ہے۔لیکن جو ہورہا ہے وہ نمبروں کا مقابلہ،اے گریڈ کی تعداد کا مقابلہ‘ اسکول کے نام کا مقابلہ‘ جس میں والدین کا سر فخر سے بلند رہے۔ فیصلہ تو وہی کریں گے نا کہ بچہ کیا پڑھے گا اور کیا بنے گا۔
ایک سوال آیا کہ آخر اسرائیل نے دو سو نوبل انعام کیسے لیے جب کہ ستاون اسلامی ممالک کو اس کے دس فیصد بھی نہ ملے؟ ۔ اب یہ مذہب کا مقابلہ نہیں۔ یہودیوں کا مؤقف ہے کہ ہم تو دنیا میں صرف دو کروڑ ہیں لہذااپنی افرادی قوت کو ضائع نہیں کر سکتے، وہ تین سال کے بچے کا ذہنی رجحان دیکھتے ہیں اور اس کے مطابق تعلیم دیتے ہیں کہ یہ کیا بن سکتا ہے اور اس طرح کسی بھی بچے کی خداداد صلاحیت ضائع نہیں جاتی خواہ وہ کسی بھی شعبے میں ہو۔