دنیا کے جھملیوں سے ذرا ادھر ایک ویران جزیرے میں لگ بھگ ڈیڑہ عشرے سے کچھ سجدوں کے نشان ہیں ، خدا کی کچھ مخلوق ہے جسے دہشت گردی کے لاحقے سابقے لگاکر پنجروں میں قید رکھا گیا ہے ۔ جی ہاں درست سمجھے گوانتاناموبے کا ذکر ہے جو اب ایک استعارے کی شکل اختیار کرچکا ہے ۔وہاں موجود اسیروں کا تعلق قریباً دنیا کے ہر خطے سے ہے ‘کئی برس انسانیت کے ماتھے لگے کلنگ کے اس ٹیکے کی بابت پتہ چلا ہے یہاں موجود اکثر دہشت گرد بے گناہ ہیں ، گناہ و بےگناہی کی سند وہ جاری کرتے ہیں جو اس بات کا کلی اختیار رکھتے ہیں اور ہم صرف ان کے اشارہ ٔابرو کے منتظر، کہ اسی کی بنیاد پہ اپنا مؤقف ترتیب دیتے ہیں ۔
گوانتاناموبے کا زندان دوبارہ یوں خبروں میں ہے کہ ایک پاکستانی احمد ربانی چودہ برس بعد بےگناہ قرار دیدیا گیا ہے احمد کا ایک سگا بھائی بھی اسی کے ساتھ قید ہے۔یہ کراچی کی نہایت ہی غریب فیملی ہے کسمپرسی اور شدید خوف کے عالم میں اس گھر کے لوگوں نے یہ وقت گزارہ ہے ، احمد برادران کی سہمی ہوئی بیویاں مجھے ابھی بھی یاد ہیں جب کئی برس قبل اس کہانی پہ کام کرتے ہوئے ان سے بات کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے نم آنکھوں اور رندھی ہوئی آواز میں مجھ سے صرف اتنا کہا کہ’’ ہم بہت مشکل میں ہیں آپ اسے کم نہیں کرسکتے تو برائے مہربانی اضافہ بھی نہ کریں ‘‘ میرے پاس اس خواہش کے احترام کے سوا کوئی چارہ نہ تھا ، ہاں اب جب بےگناہی کی خبر سنی تو اس تو ذکر کرنا مناسب جانا ۔
صرف احمد برادران ہی کی بات نہیں ، بلکہ کراچی ہی کے ماجد خان اور سیف اللہ پراچہ بھی وہاں کے اسیر ہیں جبکہ سیف اللہ پراچہ کا بیٹا اٹھارہ برس کی سزا کے ساتھ نیویارک کی جیل میں موجود ہے ۔
گوانتاناموبے یا امریکی جیلوں میں قید خالد شیخ محمد یوسف رمزی یا دیگر کےساتھ ان کے اہل خانہ بذریعہ سنسر شدہ خطوط یا ویڈیو لنک کے ذریعے سال میں ایک دو بار بات کرلیتے ہیں اور یہ ریڈ کراس کے تعاون سے ممکن ہوتا ہے ۔ گوانتاناموبے میں باون پاکستانی تھے جن میں بیشتر کی رہائی ہوچکی اور صرف چار یا چھے افراد باقی ہیں ۔
چند برس قبل غالباً ریڈ کراس ہی نے گوانتاناموبے میں موجود بعض قیدیوں کی شاعری یا دیگر تحاریر جاری کی تھیں جس کے کچھ حصے پڑھنے کو ملے تھے ، مہذب دنیا کا ایک الگ سا ہی نوحہ لکھا تھاآہنی پنجروں میں قید ان انسانوں نے ۔ حالیہ دنوں میں ابو زبیدہ کی تفتیش سے متعلق کچھ باتیں منظر عام پہ آئیں مختصر یہ ہے کہ اس شخص پہ لگ بھگ وہی مظالم کیے گئے ہیں جو پرانے زمانے کے بادشاہ مخالفین کے ساتھ یا مشرکین مکہ ایمان لانے والوں کےساتھ کیاکرتے تھے ۔
ابو زبیدہ کو تابوت میں بند رکھنا ان تفتیش کاروں کا پسندیدہ ترین عمل تھا ، پاکستانی شہری ماجد خان کی بیٹی اب بارہ تیرہ برس کی ہوچکی اپنے باپ کو کبھی نہ دیکھنے والی یہ بچی قرآن مجید زبانی یاد کرچکی اور اس کی اطلاع بھی ماجد خان کو دیدی گئی ہے پتہ نہیں یہ خبر وہاں اپنے دوستوں کے ساتھ کیسے شئیر کی ہوگی ؟ کیا جذبات ہوں گے ؟ کراچی کے ماجد خان امریکا میں طویل عرصہ مقیم رہے غالباً عافیہ صدیقی سے کسی تعلق کی وجہ سے اسیر ہیں ۔
سیف اللہ پراچہ جن کا اوپر ذکر کیا ، اربوں پتی تاجر تھے پاکستان کی کئی سیاسی و غیر سیاسی مذہبی جماعتیں ان سے کروڑوں روپے فنڈز لیا کرتی تھیں ، کچھ برس قبل تک ان کا چھوٹا بیٹا شہر کے معروف تعلیمی ادارے میں زیر تعلیم تھا ۔
خالد شیخ محمد بھی وہاں موجود ہے اور یہ یمنی شہری رمزی بن الشیبہ کے ساتھ ان دو چار قیدیوں میں سے ہے جس پہ گیارہ ستمبر کے حملوں کا باقاعدہ الزام اور مقدمہ قائم ہے دلچسپ بات یہ ہے خالد شیخ و رمزی نے ان حملوں میں اپنے کردار کو نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ کچھ عرصہ قبل امریکی عدالت میں خالدشیخ محمد نے جج کے سامنے امریکی پالیسیوں کے خلاف اور قبول اسلام کی دعوت سے متعلق لمبی چوڑی تقریر کی جس کے کچھ حصے رپورٹ بھی ہوئے ۔
اوبامہ سرکار اپنے دور کے اختتام سے قبل اس جیل کو بند یا محدود تر کرنا چاہتی ہے جبھی حالیہ عرصے میں قیدیوں کی رہائی ہوئی اور تقریبا سارے رہا شدگان اپنے آبائی ممالک کے بجائے دیگر ممالک منتقل کیے گئے البتہ پاکستان ان گنے چنے ممالک میں سے ہے جس نے اپنے قیدیوں کو قبول کیا بہت سے قیدی اپنے ملک جانے سے انکاری تھے جبکہ زیادہ تر کو ان کے ممالک لینے کو تیار نہیں ہوئے جسکے بعد مختلف خطوں میں رہائی پانے والے افراد کو بھیجا گیا اور ان میں جنوبی امریکہ کے بعض ممالک بھی شامل ہیں ، اس جیل میں متحدہ قومی موومنٹ لندن کے ایک رہنماء کے برطانوی نژاد صاحبزادےمعظم بیگ بھی بارہ برس اسیر رہے لیکن دوران قید ان کے رویہ سے، حفاظت پہ تعینات گارڈز اتنے متاثر ہوئے کہ نہ صرف اسکا برملا اعتراف ہوا بلکہ گزشتہ دنوںایسے ہی ایک گارڈ نے برطانیہ جاکر انکی مہمان نوازی میں وقت گزارا ۔
اچھی اور خوب صورت دنیا تب ہی بن سکتی ہے جب مہذب دنیا انصاف کی فراہمی ممکن بنائے دوغلے اور منافقانہ طرز عمل سے گریز کرے ، ورنہ گوانتاناموبے تو سامنے کی جیل ہے دنیا بھر میں مختلف مقامات پر موجود سی آئی اے کے اذیت کدوں کے بارے میں کسے خبر ہے جہاں دن رات تفتیش کے نام پہ تضحیک و مظالم کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔