The news is by your side.

کمرتوڑنے کے دعوے سے گریز بہتر ہے

پہلی بات تو یہ ہے ہر دہشت گرد حملے کو ناکام بنانا سیکیورٹی اداروں کی ذمہ واری ہے اس لیے کٹہرے میں پہلے وہ بعد میں سول ادارے آتے ہیں ، دوسری بات یہ ہے کہ صرف مار دھاڑ اور آپریشنز سے جہادیوں نے ختم ہونا ہوتا تو امریکہ انہیں ختم کرچکا ہوتا ۔ جہادیوں کی اصل طاقت وہ نظریہ ہے جو انہیں مذہب فراہم کرتا ہے اسی وجہ سے انہیں ایسے لوگ باآسانی میسر آتے ہیں جو زندگی سے زیادہ موت سے محبت کرتے ہیں ۔

مختلف آپریشنز اور پولیس مقابلوں کے دوران  سے بسا اوقات جو بے گناہ مارے جاتے ہیں ، اس کی وجہ سے ردعمل کے طور پہ دہشت گرد قرار دی گئی تنظیموں کو نیا خون ملتا رہتا ہے یہ اور بات ہے کہ بہت سے  گروہوں کو مختلف ممالک ایک دوسرے کے خلاف بھی استعمال کرتے ہیں ۔

کوئٹہ پولیس ٹریننگ سینٹر پر حملہ، 61اہلکار شہید

دہشت گردی کے خلاف جنگ  میں ہونے والی ناانصافیوں  نے ایک پوری ایسی نسل تیار کردی ہے جو عالمی و علاقائی سطح پہ چھوٹے لیکن خوفناک حملوں کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اس کا اظہار وقفے وقفے سے ہوتا رہتا ہے ۔ صحیح بات تو یہ ہے جہادی آپس میں کاروائیوں کی شرعی تشریح کے حوالے سے بہت سے اختلافات  کے باوجود ساتھ ہی رہتے ہیں  ان میں دشمنی کم کم ہی رہتی ہے البتہ دولتِ اسلامیہ کا معاملہ یکسر مختلف ہے ۔

کوئٹہ حملے میں لشکر جھنگوی العالمی کا نام سامنے آیا ہے، گروپ کے ترجمان نے دعوی ٰکیا ہے  کہ یہ حملہ دولتِ اسلامیہ کے اشتراک سے کیا گیا ہے ۔ دلچسپ امر یہ ہے لشکر جھنگوی اور دولت اسلامیہ نظریاتی اعتبار سے الگ ہیں لیکن یہاں ہدف کے حصول کے لیے وہ ایک پیج پہ نظر آئے اور  پھر اہل تشیع کو دشمن سمجھنا دونوں کے درمیان  قدرِمشترکہ ہے ۔

ملک بھر کے حساس اور عسکری اداروں پر ہونے والے دہشت گرد حملے

اس معاملے کا ایک قابل غور پہلو یہ ہے کہ لشکر جھنگوی العالمی کا ہیڈ کوارٹر افغانستان میں ہے اور تنظیم کا ماسٹر مائنڈ کابل سرکار کی پناہ میں نہیں بلکہ جنوبی افغانستان کے ان علاقوں میں موجود ہے جو نہ صرف پاکستانی سرحد سے جڑے ہوئے ہیں بلکہ یہاں افغان طالبان کا اثر و رسوخ کافی زیادہ ہے اور انہی علاقوں میں القاعدہ بھی موجود ہے ۔ یعنی کے افغان طالبان یہ سب جانتے ہوئے بھی خاموش ہیں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے ایسے گروپس کو پاکستان کے سیکیورٹی اداروں سے مذاکرات کے دوران اپنے معاملات کو درست کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ یہ بات پیش نظر رہے کہ لشکر جھنگوی کی اعلیٰ قیادت ملاعمر کے دور میں افغانستان میں موجود رہی اور اپنے تربیتی مراکز چلاتی رہی۔ حکومت پاکستان کے تمام مطالبات کے باوجود انہیں حوالے نہیں کیا گیا یہی معاملہ لشکر جھنگوی العالمی کا لگتا ہے کہ افغان طالبان انہیں کاروائی بند کرنے کا تو کہہ سکتے ہیں لیکن حوالگی کا امکان نظر نہیں آتا اور اس کے بدلے میں یقیناً وہ پاکستان سے اپنے کچھ مطالبات تسلیم کرانے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ یہ بھی یاد رہے کہ گیارہ ستمبر کے بعد افغان طالبان نے اہل تشیع کو نشانہ بنانے سے گریز کیا ہے  ۔

عسکریت ایک پیچیدہ کھیل ہے جس کے کھلاڑی ہر چال  حالات کے مطابق چلتے ہیں ۔  پاکستانی اداروں پہ حملوں سے افغان ا ور ھند سرکار کو اطمینان ملتا ہے اور بہت سے گروہ ایسے بھی ہیں جو پیسوں‘ نفرت اور ردعمل کے طور پہ انکے آلہ کار بنتے ہیں ۔ اس میں قوم پرست یا مذہبی عسکریت پسند کی تفریق نہیں ۔

سیکیورٹی اداروں پہ تنقید اپنی جگہ لیکن یہ حقیقت ہے  کہ تحریک طالبان پاکستان کو کمزور کیا جاچکا ہےاور اس کی حملوں کی صلاحیت میں ٹھیک ٹھاک کمی آچکی ، البتہ مکمل خاتمہ جب تک نہ ہو تب تک کمر توڑنے کے دعوے سے گریز بہتر ہے ۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں