The news is by your side.

کامیابی اورناکامی کے تصورات

کیا کامیابی کی تعریف ممکن ہے؟ شاید نہیں،،زندگی کے ہر شعبے میں ہر شخص کے لیے  کامیابی کا تصور مختلف ہے ۔ایک شخص دنیاوی علتوں  سے لاتعلق عرفان حق کے لیے تمام عمرمراقبے  میں صرف کرکے اطمینان قلب حاسل کرتا ہے کہ وہ کامیاب رہا۔ دوسرا مکیش امبانی بھارت کا سب سے دولتمند شخص بن جاتا ہے‘  رہائش کے لیے ستر منزلہ عمارت بنواتا ہے اور اپنی بیٹی کی شادی یوں کرتا ہے کہ اس کا اندراج دنیا کی سب سے مہنگی شادی کے طور پر ہو لیکن مطمئن پھر بھی نہیں ہوتا اور کامیابی کی جدوجہد جاری رکھتا ہے۔۔تمام علوم و فنون اور شعبہ ہائے زندگی میں کامیابی کی حتمی منزل کا تصور کوئی نہیں ‘ یہ ستار ایدھی کے لیے کچھ اور تھا اوربل گیٹس کی لیے کچھ اور ہے ۔

شاید ناکامی کے معاملے میں ایسا نہیں۔۔کہا جاسکتا ہے کہ جس کو زندگی بسر کرنے کا سلیقہ نہ آیا وہ کامیاب نہیں۔ تاریخِ انسانی اور خود ہماری تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔مو ہن چند اوبرائےغیر منقسم ہندوستاں کے ایک ہل اسٹیشن شملہ میں ایک ہوٹل میں بارہ روپے ماہوار پر ویٹر تھا جو ایک انگریز کی ملکیت تھا۔وہیں وہ لگن اور ایمانداری سے پچاس روپے ماہانہ پر بکنگ کلرک ہوا ۔ایک وقت آیا جب انگریز نے ہوٹل بیچ کر واپس وطن جانے کا فیسلہ کیا تو اوبرائےنے اس سے درخواست کی کہ اس کے لیےقیمت میں خاص رعایت کی جائےتو وہ کچھ رقم کا بندوبست کرے۔اب اسے انگریز کی دریا دلی کہیں یا اس کلرک کی قسمت ۔اس نے بیوی کا سارا زیور بیچا‘ جہاں سے مل سکتا تھا قرض لیا اور ساری رقم مالک کے سامنے رکھ دی جو مالک نے اٹھالی۔اوبرائےنے ہوٹل کا انتظام سنبھالا اور اپنی صلاحیت سے دوسرے فائیو  اسٹار  ہوٹلوں کے ٹھیکے لیے یہاں  تک کہ وہ انڈیا قبل ازتقسیم  تمام ہوٹلوں میں منتظم بنا اورمیزبانی کے عالمی معیار قائم کیے۔تقسیم کے وقت پاکستان کے پانچ ہوٹل اوبرائے کی ملکیت  تھے۔لاہور کا فلیٹیز‘ پنڈی کا فلیش مین‘ پشاور کا ڈینز‘ مری کا سیسل اور کراچی کا میٹروپول۔

اب ان میں سے صرف پہلے دو باقی ہیں لیکن اوبرائےکا نام عالمی معیار کی ضمانت ہے،اس کے پاس نہ تعلیم تھی نہ ہوٹلنگ یا مینیجمنٹ کی کوئی  ڈگری۔کراچی میں میرے اک ذاتی دوست جب احمد سویٹس اور فوڈ پراڈکٹس والے کے ساتھ پاکستان پہنچے تو احمد ایک تھالی میں برفی لےکر بیٹھا اوردوسرے دوست نے مزدوری کی۔پھر دونوں کراچی آئے۔میرے دوست کے والد نے کندھے پر بوری ڈال کے گلی گلی ٹین ڈبے ردی خریدے جو وہ شام کو ایک کھوکھے پر دیتے تھے۔پیسے بچا کےانہوں نے ایک کھوکھا خریدا جہاں شام کو دوسےتین پھیری والے کباڑی اپنا مال دیتے تھے‘ وہ اس میں سے پرانے زنگ خوردہ پائپ  کے ٹکڑے نکال کر نئی  چوڑیاں بنا کرجوڑتے تھے اور سیکنڈ ہینڈ سینٹری فٹنگ سے منافع کماتے تھے۔

اسی زمانے میں حئی اینڈ سنز پائپ قائم ہوئی ہیں توانہوں نے تیس ہزار کی سیکیورٹی فراہم کرکے ایجنسی لی اور آج وہ انڈسٹریل پائپس کے بہت بڑے امپورٹر ہیں۔ ان کے آٹھ بیٹے ڈاکٹر سے صنعتکار سب کچھ ہیں لیکن ان کی وضع قطع اسی جاہل کباڑیے کی سی ہے جو گلی گلی کندھے پر بوری ڈالے صدا لگاتا تھا’’چھان بورا ٹین ڈبے ردی اخبار والا‘‘۔ دنیا کی تاریخ نہیں ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے اور آج بھی پاکستان کے بیشتر کروڑ پتی ارب پتی صنعتکار ‘ بینکار اورتاجرکوئی تعلیم یا ڈگری نہیں رکھتے۔

اس کے برعکس لاکھوں کے خرچ سے اعلیٰ تعلیم پانے والےہزاروں ایم بی اے‘ یونیورسٹی کے سند یافتہ انجینئر‘ ڈاکٹر چند ہزار روپے ماہانہ کی نوکری         پھرتے ہیں کوئی پوچھتا نہیں۔ باہر جانا ناممکن ہوتا جارہا ہے ۔سب جانتے ہیں کہ نصاب فرسودہ ہے اور عصری تقاضے پورے نہیں کرتا۔پھر ڈگری بغیر پڑھے بھی مل جاتی ہے۔ آئندہ سالوں میں مہنگائی  کی شرح تو ہمیشہ کی طرح بڑھے گی لیکن ان سند یافتہ بے روزگاروں کی تعداد کروڑوں میں ہوگی۔وہ کیا کریں گے؟ وہ فاقہ کشی کریں گے خود کشی یا جرائم؟ یہ وقت بتائے گا لیکن دیکھئے آج فیصل آباد میں بارہ ناولوں کا مصنف ‘  لاہور میں ایک ایم اے‘ بی ایڈ انگلش گرامر کی کتابیں لکھنے والا اور پنڈی میں ایک نامور شاعر علم عروض کا ماہرتینوں رکشا چلا رہے ہیں کراچی میں ایک ایم بی اے اسکول وین چلاتا ہے،یہ مثالیں میرے علم میں ہیں۔انہوں نے ڈگری اور سفید پوشی کو رکھا بالائےطاق اور محنت کی عظمت والا فارمولا اپنا لیا۔

اج کامیاب وہ ہے جو زندہ رہنے کا فن یا سلیقہ جانتا ہے۔آپ کسے کامیاب کہیں گے اور کسے ناکام؟ اس ان پڑھ  معمولی سبزی بیچنے والے کوجو دن بھر میں ایک ہزار کما لیتا ہے اور تیس ہزار کی آمدنی میں بھی اپنی ذمے داریاں پوری کر رہا ہے اور کل اپنی دکان کا مالک یا منڈی کا آڑھتی ہونے کی امید رکھتا ہے یا ہر جگہ سی وی ارسال کرنے والے کو جوکنٹریکٹ کی ملازمت میں کوئی مستقبل محفوظ نہیں دیکھتا۔کون نہیں جانتا کہ بندو خان ایک ریڑھی پر کباب بناتے تھے‘ لاہور میں برف خانے کا چھوٹا سا حلوائی ’نرالا‘ آج ایم بی اے  کیے افراد کوملازم رکھتا ہے۔پنڈی کے دو بھائی جو چالیس سال پہلے ریڑھی پر قلفی بیچتے تھے‘ آج ایک درجن سے زیادہ چمکتی دمکتی سوٹ شاپس کے مالک ہیں جہاں دس دس ویٹراور سیلز مین ہیں۔ سیالکوٹ میں ایک نیوکلیئر فزکس میں ایم ایس سی اپنی اسپورٹس شاپ چلارہاہے۔

کیا میں یہ ثابت کر رہا ہوں کہ تعلیم بے کار چیز ہے ؟ جی !آپ ٹھیک سمجھے۔تعلیم برائےتعلیم کا کوئی جواز ہے؟ ۔زندہ رہنے کے لیے  ڈگری نہیں پیسہ چاہیے۔نوے فیصد پر آسائش یا پر تعیش زندگی گزارنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ نہیں۔آپ جاب مارکیٹ کی ضرورت دیکھے بنا کچھ کتابیں رٹ کے سمجھتے ہیں کہ بس اب سارے دلدر دور ہوجائیں گے۔باہر سے اعلیٰ سند یافتہ اگروطن لوٹ آئے تو اسے اندازہ ہوتا ہے کہ ہر پوسٹ بہت مہنگی بکتی ہے یا بہت بڑی سیاسی سفارش سے ملتی ہے۔مایا کو مایا ‘ لے کر کر لمبے ہاتھ‘‘  دولت مند کی آل اولاد کے لیے سارے مواقع ہیں ورنہ ہر جگہ ہری جھنڈی ہے۔

بات کو مختصر کرتا ہوں تعلیم کو آمدنی اور پر آسائش زندگی کی ضمانت سمجھنے کے خواب ِگراں سے جاگو۔ کامیابی کو محنت سے مشروط کر لینے کا وقت ہے اورمحنت کے لیے اپنی خداداد صلاحیت کو بروئے کار لائیں۔یہ صلاحیت کیا ہے؟ آپ خود جان سکتے ہیں۔سفید پوشی میں عزت کےفرسودہ تصور کی دنیا سے نکل آئیں ۔نوشتۂ تقدیر کچھ نہیں،  ’’لیس لل انسان الا ما سعیٰ‘‘( ترجمہ :انسان کو اتنا ہی ملتا ہے جتنی وہ کوشش کرتا ہے)۔بے شک رزق پتھر کے کیڑے کو بھی ملے گا لیکن آپ پتھر کے کیڑے نہیں ‘ اشرف المخلوقات ہیں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں