The news is by your side.

کیا ہمارے دینی اعمال تحقیق پرمبنی ہیں؟

کہتے ہیں جو اپنے آپ کو غلط سمجھنے کا حوصلہ رکھتا ہو وہ ہدایت سے کبھی محروم نہیں رہ سکتا لیکن ہمارے ہاں تو رواج ہی یہی ہے کہ جو میں کہہ رہا ہوں بس وہی صحیح ہے۔ ہم کبھی بھی تحقیق کر نے نتیجہ نہیں نکالتے بلکہ نتیجہ نکال کر تحقیق کرتے ہیں۔ اور تو اور اپنی ہر بات کو اسلام کے مطابق کہہ دینے میں بھی بہت جلد بازی دکھاتے ہیں۔ محض سنی سنائی اور معاشرے میں جاری ہر بات کو بغیر تحقیق اور حوالہ جات کے اسلامی کہہ دیتے ہیں۔ بہت سی ایسی باتیں ہیں جنہیں ہم اسلامی سمجھتے ہیں حالانکہ وہ اسلامی نہیں ہوتیں۔

ہماری تبلیغ ہمیں اللہ سے ڈرنا تو سکھاتی ہے لیکن اللہ سے محبت کرنا نہیں سکھاتی۔ ایک دوسرے کو کافر کہنا ہم اپنا ایمان سمجھتے ہیں۔ ہم گناہگار سے نفرت کرکے سمجھتے ہیں کہ ہم نے بہت دیندار کام کیا ہے۔ ہم انسانوں سے پیار کیوں نہیں کرتے۔

جب ہم ہندؤں کے یا کسی بھی غیر مسلم مذہب کے پیشواؤں کا ذکر کرتے ہیں تو ان کے پیشواؤں کو دو چار گالیاں نکالنا اپنے ایمان کا ضروری حصہ سمجھتے ہیں حالانکہ قرآن مجید میں سورہ انعام آیت 108 میں ارشاد ہوتا ہے ” اور انہیں گالی نہ دو جنہیں وہ اللہ کے سوا پوجتے ہیں” اس کی ایک وجہ تو یہ بیان کی گئی کہ آپ جب ان کے خداؤں کو گالی دیں گے تو وہ جہالت کی وجہ سے اللہ کو بھی گالی دیں گے اور دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے جیسا کہ حضرت توکل شاہ انبالوی فرماتے ہیں کہ ہمیں چاہیے کہ ہم غیر مسلموں کے پیشواؤں کو برا بھلا نہ کہیں کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ وہ کون تھے ہو سکتا ہے وہ اپنے زمانےکے اللہ کے نبی ہوں اور بعد میں ان کے ماننے والوں نے ان کی تعلیمات کو بدل دیا ہو۔


برا وہ نہیں ہوتا جو برائی کرتا ہے


عیسائیوں کو ہم چُوڑے کہہ کر پکارنا ثواب سمجھتے ہیں حالانکہ ہمارا مذہب اہل کتاب کی عورتوں کے ساتھ نکاح تک جائز قرار دیتا ہے۔ ان کا کھانا ہم جائز نہیں سمجھتے جبکہ قرآن مجید میں سورہ مائدہ آیت 5 میں ارشاد ہوتا ہے “اور کتابیوں کا کھانا تمھارے لیے حلال ہے اور تمھارا کھانا ان کے لیے حلال ہے” ہم دوسروں کے بارے نفرت کا اظہار تو ایسے کرتے ہیں جیسے ہمیں اپنے خاتمے کا بہت پکا یقین ہے کہ بہت صحیح خاتمہ ہو گا۔

ایک بزرگ کا جب وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے فرمایا کہ فلاں شہر میں فلاں جگہ ایک عیسائی رہتا ہے میں اس کو اپنا خلیفہ بنانے کا اعلان کرتا ہوں اس کو جا کر میری خلافت کی نوید سنا دینا۔سب حیران تھے کہ ہم مسلمان دن رات اللہ اللہ کر کے بھی اس نعمت سے محروم اور وہ عیسائی ہو کر بھی آپ کی خلافت کا حقدار۔۔۔جیسے ہی اس عیسائی کو آپ کی خلافت کی خبر سنائی گئی اسی وقت اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے  کہ تمام منازل طے ہو گئیں۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں