The news is by your side.

امید ہے کہ نئے سال میں ہم انسانی خون کو محترم دیکھیں

آج کا دن آخری دن ہے اس ہنگام پرور سال کا جس کے جلو میں کئی تبدیلیاں‘ کئی خوشیاں اور غم ہماری زندگیوں میں داخل ہوئے ‘ بہت کچھ دیکھا اور سیکھا ۔ بہت کچھ سنا اور سہا۔ بہت سے معاملات ایسے ہوئے کہ جی چاہا کہ گریباں چاک کر کے سینہ پیٹ لیا جائے تو بہت سے معاملات میں دل کھل اٹھا کہ شکرِ خدا یہ دن بھی دیکھا۔ الغرض آج کاسورج اس سال کا آخری سورج ہے اور اب کل جو سورج طلوع ہوگا وہ نئے سال کا سورج ہوگا جس کے جلو میں نئی امیدیں ہوں گی۔

ہم نے اس سال میں دنیا کو تبدیل ہوتے دیکھا اور پھر تبدیلی کی یہ لہر پاکستان میں بھی در آئی ، تبدیلی سے مراد وہ نہیں جو یار لوگ سمجھتے ہیں بلکہ تبدیلی سے مراد یہ کہ ہم نے ریاست کے تیور بدلتے دیکھے۔ ریاست نے دوسال قبل آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد سالوں طویل صبر آزما اعصابی جنگ میں دشمن کو براہ راست جواب دینے کا سلسلہ شروع کیا اور ان تمام طالع آزماؤں کو جنہوں نے پاکستان کو تر نوالہ سمجھ رکھا تھا واضح پیغام دیا کہ ریاست کے بازوؤں کا بل کرائے پر دستیاب گروہوں سے کہیں زیادہ ہے۔ ریاست اپنا ایک تشخص رکھتی ہے اور اس کا اپنا ایک مزاج ہے اورکسی کو بھی بندوق کے جبر پرپتھر کے دور کا کوئی ایجنڈا نافذ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ پاکستان میں فوجی حکومت کے لیے سازگار ترین ماحول ہونے کے باوجود جنرل راحیل شریف اپنی مدتِ ملازمت مکمل کرکے انتہائی باوقار طریقے سے رخصت ہوگئے اور فوج کی کمان جنرل قمر باجوہ کو سونپ دی۔

پاکستانی ایوانِ اقتدار اور افواجِ پاکستان نے براہ راست اقدامات کرکے عوام اور ملک دشمنوں کو یہ واضح پیغام دیاکہ بالاخر پاکستان ظلمت کے اس سیاہ دور سے نکل رہا ہے جسے ضیا ء الحق نے وطنِ عزیز پرنافذ کیا تھا اور اس پیغام کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ ایک ایسی جماعت کے دورِ حکومت میں دیا جارہا ہے جس کی ہرگز کوئی امید نہیں تھی اور اچھی بات یہ ہے کہ تمام ترسیاسی انتشار کے باوجود پاکستان میں نظمِ حکومت نہ صرف یہ کہ قائم ودائم رہا بلکہ ا س نے کچھ ایسے سنگِ میل عبور کرلیے جنہیں رقم کرتے وقت مورخ یقیناً اس امر کو تسلیم کرے گا کہ یہ فیصلے وقت کی سب سے اہم ضرورت تھے۔

سال 2015 میں ملک میں سی پیک کا شور اٹھا اور اس کے ساتھ ہی ملکی اور غیر ملکی سطح پر حالات و واقعات کا ایک تسلسل قائم ہوگیا جس نے پر ہوش مند ذہن کو تشویش میں مبتلا کررکھا تھا کہ آیا یہ منصوبہ جسے نہ صرف ملک بلکہ خطے کی تاریخ کاعظیم ترین معاشی منصوبہ کہا جارہا ہے ‘ اس قدر مشکلات کا سامنا کرسکے گا یا ترقی کا یہ خواب درمیان میں ہی کہیں ادھورا رہ جائے لیکن سال 2016 میں فلکِ پیر نے یہ منظر دیکھا کہ گوادر میں سی پیک کا افتتاح کیا گیا اور تجارتی جہاز اپنی منزلوں کی جانب روانہ ہوئے یعنی کہ وہ کاروانِ جاں جس کو روانگی سے روکنے کے لیے حوادثِ زمانہ ٹوٹ ٹوٹ کر پاکستان پر برس رہی تھی بالاخر اپنی منزل کی جانب روانہ ہوگئے۔

بات پاکستان سے آگے بڑھاتے ہیں کہ اس سیارے کے ہم اکیلے رہنے والے تو نہیں۔ ہم نے دیکھا کہ ترکی میں عوام نے کس طرح بندوق کی سنگینوں کو اپنے قومی پرچم میں پرولیا اور جمہور کی حکمرانی کو یقینی بنایا ۔ یقیناً تر کی میں فوجی بغاوت کی ناکامی جمہور کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں تھی۔ دیکھنے والی نگاہوں نے یہ بھی دیکھا کہ امریکہ کے عوام نے تاریخ رقم کرنے کا موقع گنوا کر ڈونلڈ ٹرمپ کو منتخب کرکے فیصلہ ساز اداروں کو واضح پیغام دیا کہ اب وہ امریکہ کی جانب سے عالمی معاملات میں بیجا مداخلت اور اس مرتب ہونے والے اثرات کو پسند نہیں کررہے۔ حد یہ بھی ہوئی کہ ہم نے حلب سے داعش کا انخلا بھی دیکھا اور اس معاملے پر پاکستان کے عوام کو دو واضح طبقات میں تقسیم ہوتے بھی دیکھا۔

الغرض یہ کہ آج کا ڈھلتا سورج نجانے کتنے ہی ہنگاموں کو اپنے دامن میں سمیٹے جار ہا ہے اور اس کے عقب میں جو سورج آرہا ہے وہ یقیناً ایک نیا سویرا ہے اور نجانے کیوں دل کو ایک مبہم سی سہی لیکن امید ہوچکی ہے کہ ہم دیکھیں گے‘ لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔ وہ روز کے جس کاوعدہ ہے‘ جو لوحِ ازل پر لکھا ہے۔ نجانے کیوں دل کہہ رہا ہے کہ نئے سال کا سورج اس امید کے ساتھ طلوع ہوگا کہ ہم اہلِ صفا مردودِ حرم بالاخر مسند پر بٹھائے جائیں گے، جمہور اپنا حق پائیں گے اور ہمارے ملک میں بھی انسانی خون کے احترام کا چلن رائج ہوگا‘ ہم دیکھیں گے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں