The news is by your side.

راحیل شریف نے مارشل لاء کیوں نہیں لگایا؟

انسان اللہ پاک کی مخلوق اور اپنی ہر طاقت و خصلت میں اس کا محتاج ہے۔ خواہ کوئی طاقت کی انتہا پر بیٹھا حاکم وقت ہو یا کوئی عام آدمی۔ کوئی بھی یہاں دائمی رہنے کے لیے نہیں آیا۔ یہ عمل پہلے انسان سے لے کر آخری انسان تک جاری رہے گا۔ کوئی بھی یہاں ناگزیر نہیں، کوئی بھی یہاں نہ رہا ہے، نہ رہے گا۔ ہمیشہ کی بادشاہی رب لم یزل کی ہی ہے۔ عقیدہ توحید انسان کو مضبوط کرتا ہے، ہر خوف سے آزاد کرتا ہے۔ خوشی پر شکر ادا کرنے اور تنگی پر صبر کرنے کا حوصلہ اور ہمت عطا کرتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیئے کہ اہل توحید کے ہر عمل سے بندگی کا اور خدمت انسانیت کا پہلو ہی اجاگر ہو اور ہر برائی سے لا حول ولا قوۃ الا باللہ کہہ کر گزر جانا عادات میں سرفہرست ہونا چاہیئے لیکن چونکہ مالک نے انسان میں سرکشی رکھی ہے ،ساتھ میں ایک کھلا دشمن شیطان بھی مستقل برسرِ پیکار ہے۔ اس لیے انسان کے بہک جانے کے امکانات موجود ہیں۔

قارئین کرام آئیں اب چلتے ہیں اپنے اصل مدعا کی طرف۔ جمہوریت کا بہترین طرز حکومت خود احتسابی، شفافیت اور قانون کی حکمرانی ہے جو ابھی تک پاکستان میں ناپید ہے۔ سیاستدانوں کا طرز سیاست عوام کو گمراہ کرنے کا باعث بنتا آ رہا ہے۔ عوام بہتر مستقبل، احتساب اور جوابدہی کے سہانے سپنوں میں شب خون کا کڑوا گھونٹ پی جاتے ہیں لیکن نتیجہ وہاں بھی صفر ہی نکلتا ہے۔ جمہوریت اور شب خونوں کے درمیان غریب عوام پس کر رہ گئے ہیں۔ محب وطن پاکستانیوں کے سارے خواب چکنا چور ہو چکے ہیں کیونکہ کوئی بھی ان کے مرض کا علاج نہیں کرسکا اور نہ ہی مستقبل قریب میں ایسے کوئی ٹھوس امکانات نظر آ رہے ہیں۔

پچھلے چند سالوں سے کرپشن نے جس طرح پاکستان میں اپنے پنجے گاڑ ے ہیں اسے اکھاڑ پھینکنا جمہوری حکومت کے بس میں نہیں رہا کیونکہ حکمران خود کرپشن اور لوٹ مار کے الزامات کی زد میں ہیں۔ کرپشن کے خلاف بھر پور مہم جوئی کے تناظر میں ہی کچھ حلقے فوجی شب خون کی سابق سپہ سالار جناب راحیل شریف کی ذات سے امیدیں وابستہ کر چکے تھے تاکہ کرپشن اور لوٹ مار کا یہ کلچر کسی طرح اپنے انجام کو پہنچے۔ پچھلے کئی دنوں سے پاجامہ لیکس نے جمہوری منظر نامے کو غیر یقینی کیفیت میں مبتلا کر رکھا ہے اور کوئی شخص یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اس عدالتی جنگ کا انجام کیا ہو گا۔

اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیئے کہ وہ قوتیں جو وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کو زیر اثر رکھنا چاہتی تھیں اب بھی طاقتور ہیں، اور اب اس میں بھی کسی کو شک نہیں رہا کہ جناب راحیل شریف کے سیاسی عزائم ہر گز نہیں تھے کیونکہ وہ اپنے تمام گزر جانے والے چیفس سے بالکل مختلف تھے۔ وہ ایک پیشہ ور فوجی تھے اور ان کی اس پیشہ وارانہ سوچ نے فوج کو نیا حوصلہ اور احترام بخشا۔ بہت سے سیاسی لٹیرے جز وقتی مفاد پرست سیاستدان جنرل راحیل شریف کی منتیں کر رہے تھے کہ وہ پاکستان کو کرپشن اور لوٹ مار کی دلدل سے نکالنے کے لیے نواز شریف حکومت کو چلتا کریں لیکن انہوں نے کسی کی نہ سنی، بلکہ اپنی پیشہ وارانہ خدمات کی بجا آوری میں ڈٹے رہے۔ ان کا خلوص اور عزم پاکستان کی نئی پہچان بن گیا۔ کوئی بھی فورم ہو جنرل راحیل شریف کے جرات مندانہ اقدامات کا حوالہ ایک حقیقت ہے۔ جس گھر میں دو نشانِ حیدر ہوں اس گھر کی فوجی صلاحیتوں سے صرفِ نظر کرنا ممکن نہیں۔ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے مشن میں ڈٹے رہے جس کی وجہ سے پورا پاکستان ان کا دل و جان سے مشکور ہے اور جب تک راحیل شریف زندہ ہیں یہ احترام قائم رہے گا۔

انسان ایک دفعہ ہیرو بن جائے تو پھر اسے ہیرو شپ کی مسند سے ہٹانا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ہوتا۔ قومی امنگوں کا ترجمان بننا انتہائی مشکل کام ہوتا ہے کیونکہ اس تمغہ کو سینے پر سجانے کے لیے ذاتی خواہشات اور اغراض کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ مال و دولت کی ہوس سے دل کو روکنا پڑتا ہے اور اپنی نگاہیں قومی مفاد پر مرکوز کرنی پڑتی ہیں۔ وطن کی محبت میں کڑوا گھونٹ پینا پڑتا ہے۔ انسان خواہشات کا غلام بن جائے تو اس کی آواز بے اثر ہوجاتی ہے۔ اس میں جرات اظہار کا فقدان ہو جاتا ہے۔ اس کی لیڈر شپ کو زوال آنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس کے احکامات پر عمل ایک سوالیہ نشان بن کر رہ جاتا ہے۔ جنرل راحیل شریف الفاظ کا غازی نہیں بلکہ کردار کا غازی ہے اور عوام اس کی ایک آواز پر لبیک کہنے کے لیے ہمہ وقت بے تاب رہی۔ جو جنرل اگلے مورچوں پر اپنے جوانوں کا حوصلہ بڑھانے کو اپنا اولین مقصد قرار دے اس کی فوج کو دنیا کی کوئی طاقت شکست سے ہمکنار نہیں کر سکتی۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں