The news is by your side.

ہو نا ہو کام یہ کسی چور کاہے

بات تو ایک بہت پرانے لطیفے کی ہے کہ کسی میرے آپ جیسے سادہ لوح نے صبح آنکھ کھول کر دیکھا تو گھر میں پرانے ماڈل کی بے قدر وقیمت بیوی علاوہ کے سوا کچھ نہ تھا۔ صندوقوں‘ الماریوں کے تالے ٹاٹے ہوئے قیمتی اشیا غائب‘ بیرونی دروازے بند مگر پچلی دیوار میں اینٹیں نکلنے سے کھڑکی سی بنی ہوئی۔ روتے  پیٹتے گاؤں کے سب سے عقلمند آدمی لال بجھکڑ کو بلایا گیا کہ سراغ لگائے۔ سب دم سادھے کمال متانت و یکسوئی سے اسے جھک کر بیٹھ کر اورالٹا سیدھا لیٹ کر جائزہ لیتا دیکھتے رہے کہ بس ابھی کوئی دم میں مجرم کا نام بتاتا ہے۔۔بالاخر لال بجھکڑ نے مسکراتے ہوئے بنظر غائرحاضرین کی طرف دیکھا اورمتانت سے کہا ’’ہونہ ہو یہ کام کسی چور کا ہے‘۔

کل کچھ یوں ہوا کہ لاہور کے ڈی ایچ اے کے بلاک ‘زیڈ’ میں تکمیل شدہ ایک ریسٹورنٹ میں دھماکہ ہوا تھا۔ اس سے متصل ایک بنک اور سامنے واقع ایک بیوٹی سیلون تک میں تباہی پھیلی۔ بنک کے ایک سیکیورٹی گارڈ حیدر اعوان نے کہا کہ اس کے حواس سُن اور جب اسے ہوش آیا تو اس نے اپنے عملے کے افراد لہولہان نظر آئے۔ باہر موٹرسایکلیں الٹی پڑی تھی‘ کاریں تباہ تھیں اور ملبہ تھا ۔اندر دھواں ،گرد وغبار۔آہ و بکا تھی
اس کے بعد لال بجھکڑ یعنی سی ٹی ڈی کے اہلکار آئے۔آج کل ان کو اردو میں انسدار دہشت گری کے سراغرساں کا متاثر کن نام دے دیا گیا ہے۔کانوں کو بھی اچھا لگتا ہے۔

لیکن آگے میری خامہ فرسائی سے پہلے آپ سوچنے کا ایک وقفہ لیجئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رقت انگیز سنسنی خیز اندر سبھا کی پریوں کے حسن و شباب کی رعنائی سے چھلکتے ساس بہو کےڈرامے میں ایک کمرشل بریک‘  آپ عام کمرشل ایئر کنڈیشنڈ سپر مارکیٹ پلس پلازہ میں تو جاتے رہے ہوں گے جہاں خاموش مزاج بڑے بڑے خودکار جنریٹربھی سامنے نظر آتے ہیں اورفاسٹ فوڈ کا ایندھن گیس سلنڈر بھی۔

اب اگر وہاں ہو جائے ایک دھماکا جب آپ قریب ہی ہوں مگر سلامت رہیں تو کیا آپ ایک نظر دیکھ کے بتا نہیں سکتے کہ کونسا جنریٹر یا سلنڈر پھٹا؟۔

لیکن “ماہرین” کی 8 گھنٹے بعد بھی’ عقل ہے محو تماشاےؑ لب بام ابھی‘۔ اور یہ میں نہیں فرمارہا بلکہ آج کے اخبارات کی سرخی ہے جناب۔۔ لال بجھکڑ کا کہنا ہے کہ ’’دھماکا کسی خود کار الیکٹرانک ڈیوائس‘‘  سے کیا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہا ہا ہا۔ ۔۔ کیا لطیفہ ہے۔۔ماہرین وہ ہیں جو ماضی میں دھماکے کی آواز سنتے ہی بعض اوقات اس سے پہلے بتاتے رہے کہ اس میں کتنا دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا‘ اس سے کتنا بڑا گڑھا پڑا‘  خود کش دہشت گرد جو ہلاک ہوئے وہ کون تھے۔ کس پڑوسی دشمن ملک کے آلہ کار تھے۔ ان کی شہر میں موجودگی کی پیشگی اطلاع موسمیات والوں کے راڈار سے کب کی مل چکی تھی۔ان کے ’سہولت کار‘ ( یہ لفظ ایجاد ہو چکا ہے) کون تھےاور یہ کہ ایک خود کش کا سربھی مل گیا ہے۔

ایسے سر اب اتنی تعداد میں دستیاب ہوں گے کہ ایک قابل نمائش میوزیم میں رکھے جا سکتے ہیں اور کتنا اچھا لگے گا اگر آج کے ان ماہرین کو
بھی ان کے ساتھ رکھ دیا جاےؑ۔

بزبان شاعر ’ لیکن اب کے نظر آتے ہیں کچھ آثار جدا‘۔ اسباب پر بیانات جدا‘ میڈیا نے کچھ کہا‘ پولیس نے کچھ فرمایا‘  کسی ستم ظریف یا شر پسند کی حرکت دیکھئے کہ صحیح سالم تندرست جنریٹر کی تصویر سوشل میڈیا پر جاری کردی۔پھر ’’فارنزک‘‘ ماہرین نے کہدیا کہ یہ گیس کا دھماکا ہرگز نہیں تھا۔یہ تو کہہ نہیں سکتے کہ دھماکا ہوا ہی نہیں بس انگشت بدنداں ہیں ہنوز۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں