The news is by your side.

غیر محفوظ جھولے اہم یا جان ؟

نوید کے گھر میں آج صف ماتم بچھی تھی اس کا ننھا بچہ جو پارک میں اہل خانہ کے ساتھ سیر کرنے گیا تھا وہیں جھولے لینے کی ضد بھی کرنے لگا تھا ، معصوم شازل یہ جانتا نہیں تھا کہ ہمارے ملک کے پارکوں کے جھولے بھی محفوظ نہیں ، ان کے راڈ کبھی بھی کھل سکتے ہیں ، جھولوں کی مرمت کبھی نہیں ہوتی اور نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ عام آدمی کا کوئی بھی بچہ زخمی ہو سکتا ہے ، ہاں لیکن یہ حقیقت تو اب نوید اور اس کی بیوی جان چکے تھے کہ ایسا المیہ صرف غریبوں کے بچوں کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔

کیونکہ ہماری اشرافیہ اور ان کے اہل خانہ کسی بھی بم دھماکے میں اپنی جان نہیں گنواتے ، کوئی انھیں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ نہیں بناتا ، ٹریفک کے حادثات ، ریپ ، لینڈ مافیا اور حادثاتی موت کے واقعات ان اہم شخصیات اور ان کے رشتے داروں کے ساتھ نہیں ہوتے۔

اگر ہم اپنے ملک میں تفریحی مقامات کی بات کریں تو وہاں ناقص انتظامات ، صفائی کی غیر تسلی بخش صورتحال ، باسی کھانوں کا فروخت ہونا اور اس طرح کے دوسرے مسائل کی موجودگی کے ساتھ ساتھ ایک اہم مسئلہ بچوں کے لئے جھولوں کی درست تنصیب نہ ہونا اور ان کی مناسب مرمت نہ ہونا بھی شامل ہیں ۔

ستمبر15‘ دو ہزار سولہ کو ملتان کے جناح پارک میں جھولا گرنے سے ایک نوجوان جاں بحق اور انیس زخمی ہوئے تھے کیونکہ الیکٹرک جھولے کا لاک کھل گیا تھا ۔ تاہم جھولا گرنے کے واقعات صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں ہوتے ہیں لیکن ہمارے ملک کے مقابلے میں ان کا تناسب خاصا کم ہے ۔

چین میں گذشتہ سال ایک چودہ سال کی بچی ایک سوئنگ رائڈ سے گر کر ہلاک ہوئی تھی ایک جائزے کے مطابق جھولا گرنے کے واقعات میں مختلف جھولوں سے گرنے کا تناسب مختلف ہے جن میں اونچائی پر چڑھنے والے جھولوں سے ۲۳ فیصد، سلائیڈز سے اکیس فیصد ، راونڈ اباؤٹ سے پانچ فیصد ، سی سا سے چار فیصد اموات واقع ہوتی ہیں ، دنیا بھر میں ہر سال بچوں کے جھولوں سے گرنے میں چالیس ہزار سے زائد انجریز ہوتی ہیں ۔

اگر ہم جھولا گرنے کے واقعات اور ان کے اسباب پر بات کریں تو درج ذیل چیزیں سامنے آتی ہیں۔

ہمارے ہاں پارکوں میں زیادہ تر یہ بھی نہیں لکھا جاتا کہ جو جھولے لگائے گئے ہیں وہ کتنی عمر تک کے بچوں کے لئے ہیں ؟ غریب کا بچہ صرف تفریح چاہتا ہے اور ہر شخص خواندہ بھی نہیں ہے تو اگر کسی جگہ پر عمر کے بارے میں معلومات بھی ہیں تو لوگ اس سے واقف نہیں ہو سکتے ۔

بچوں کے لئے کئی پارکس میں گراونڈ لیول بھی نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے بھی جھولوں کی تنصیب ٹھیک نہیں ہوتی اور بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے بھی حادثات رونما ہوتے ہیں ۔

جھولوں کی تنصیب کے بعد ان کی مناسب مرمت بھی نہیں کی جاتی ، اکثر کنٹریکٹرز چند پیسوں کی خاطر بچوں کی قیمتی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں اور ان کا احتساب کرنے والا کوئی نہیں ۔

پارکوں اور تفریح گاہوں میں جو جھولے لگائے جاتے ہیں ان کے لئے ناقص پرزہ جات اور ساز و سامان استعمال کیا جاتا ہے جس کی وجہ بھی یہ سانحات واقع ہوتے ہیں ۔

یہ بات بھی سو فیصد درست ہے کہ بچے ہوں یا بڑے جھولوں پر بیٹھتے وقت اپنے لباس کا بالکل خیال نہیں رکھتے ، خواتین کے دوپٹے اورچادریں جبکہ بچیوں کے فراک نہایت آسانی سے جھولوں کے پرزہ جات میں پھنس جاتے ہیں اور حادثات رونما ہوتے ہیں۔

جھولے چلانے والے اکثر افراد غیر تربیت یافتہ ہوتے ہیں جنہیں نہ تو بنیادی معلومات کا علم ہوتا ہے اور نہ ہی انھیں سانحات سے نمٹنے کی کوئی تربیت دی جاتی ہے ۔بجلی کے جھولے ہونے کی صورت میں اگر بجلی چلی جاتی ہے تو کوئی جنریٹرز وغیرہ موجود نہیں ہوتے کہ جھولوں میں بیٹھنے والے افراد کے تحفظ کے لئے کچھ کیا جا سکے ۔

جب ہم تفریح کی بات کرتے ہیں تو اس کے لئے فراہم کردہ سہولیات کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر نہیں ڈالی جا سکتی کیونکہ کئی پارکس ایسے بھی ہیں جنہیں کئی مخیر حضرات نے قائم کیا ہے اور ان کی مینٹینس ان کی ذمہ داری ہے ، عام شہریوں کو بھی اپنے فرائض سے غافل نہیں ہونا چاہیے کہ جہاں انھیں جھولوں میں کسی قسم کی خرابی کا علم ہو پارک کی انتظامیہ کو اس سے آگاہ کریں ۔

فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ سب کا احتساب اور متعلقہ اداروں کا بااختیار ہونا ضروری ہے تاکہ ان افسوناک واقعات کے ذمہ داران کو کہٹرے میں لایا جا سکے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں