انسان عشق میں خود کو کتنا دھوکہ دیتا ہے، ہار کے بھی جیت کے خیال سے خود کو خوش رکھتا ہے۔خیالوں ہی خیالوں میں اپنے ہی بنائے ہوئے بت بنا کو پوجتارہتا ہے۔ عقل و شعور اور ادراک کے معنی کھوچکا ہے اوراپنے ہاتھوں بنائے پیکر کو خدا سمجھ رہا ہوتا ہے مگر اسے کون شعور دے کہ لاحاصل عشق میں تو سب رائیگاں جاتا ہے۔
کہتے ہیں عشق صرف وقت گزاری کے لیے ہو تو تباہی پھیلاتا ہے، یہی ہوا ایک اعلیٰ سرکاری افسر کے ساتھ جس کی عبرت ناک کہانی سے دوسروں کو عبرت پکڑنے کی ضرورت ہے ۔ اعلیٰ سرکاری افسر کا نام ظاہر کرنا ضروری نہیں سمجھتا ہوں اس لیے افسر کا فرضی نام چوہدری صاحب سمجھ لیا جائے۔
سندھ پولیس میں اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے میری ملاقات چوہدری صاحب سے ہوئی ، چار پانچ سال گزرے تو یہ ملاقات گہری دوستی میں تبدیل ہوچکی تھی۔ چوہدری صاحب سرکاری ادارے میں اعلیٰ عہدے پر فائض تھے ، ان کی قابلیت ،ایمانداری ، دوستی اور دبنگ سرکاری افسر کے چرچے صوبے بھر میں مشہور تھے۔ یہی نہیں بلکہ چوہدری صاحب کے نیچے کام کرنے والے افسران بھی ان کی قابلیت اور کام کے طریقہ کار سے انتہائی متاثر تھے ، وہ خاندانی زمیں دار تھے اس لیے روپے پیسے کی کوئی کمی نہیں تھی ،ان کی گھریلو زندگی بھی انتہائی خوش گوار تھی ، نیک پاک باز بیوی اور اچھے تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرنے والے چار بچے ان کی کل کائنات تھے۔
چوہدری صاحب کی خوشگوار زندگی اس وقت اچانک تباہی کی طرف چل پڑی جب مینا (فرضی نام) نامی ایک رقاصہ سے ان کی ملاقات ہوئی ، یہی وہ منحوس گھڑی تھی جس نے ایک بہترین اور زندہ دل شخص کو بے بسی کی آخری حدوں تک پہنچاکر اسے موت کی وادی میں دھکیل دیا۔
عشق میں مارے جانے والے دہشت گرد کی کہانی
چوہدری صاحب کی بد قسمتی کہ ایک شام وہ اپنے ایک سیاستدان دوست کے گھر کھانے کی دعوت کے بعد محفلِ موسیقی اور ناچ گانے کے اہتمام میں موجود تھے ، محفل اپنے جوبن پر تھی جہاں فلموں کی خوبصورت اداکارہ و رقاصہ مینا اپنے رقص کا جادو جگارہی تھی۔ وہ ایک ماہر رقاصہ تھی جسے تماش بینوں کے دل جیتنے کا فن آتا تھا ، چوہدری صاحب اس ادھیڑ عمری میں بھی پہلی ہی نظر میں ناچنے گانے والی مینا جو کہ کسی بھی محفل کی جان کہلاتی تھی اور اُسے ناگن کے لقب سے نوازا جاتا تھا‘ کے دیوانے ہوگئے اور اپنا سب کچھ لٹا بیٹھے۔
جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا کہ چوھدری صاحب اپنی سرکاری حیثیت کے علاوہ وضع قطع ، مال و دولت وغیرہ کے لحاظ سے کسی سے کم نہ تھے اور دوسری جانب مینا ایک خاندانی طوائف خاندان سے تعلق رکھتی تھی جسے بچپن ہی سے اس کھیل کی تربیت دی گئی تھی، کس طرح پیسے والوں کو پھانسنا ہے اور کس طرح اُن کی جیبیں خالی کرانی ہیں۔
چوھدری صاحب ایسے خاندانی لوگ جنہوں نے ساری زندگی شرافت سے بسر کی ہو اور اپنی بیوی کے علاوہ کبھی کسی دوسری عورت سے کوئی تعلق نہ رکھا ہو اگر ادھیڑ عمری یا بڑھاپے میں کسی پردل ہاردیں تو سیانے کہتے ہیں ایسے لوگوں کو برباد ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ مینا نے ان کی بے قراری اور بےچینی بھانپ کر ایسی ادائیں دکھائیں کہ صاحب کو لگا کہ وہ حسینہ ان کے جال کی قیدی بن جائے گی۔ اسی اُمید پر چوہدری صاحب روزانہ اپنے اس دوست کے گیسٹ ہاؤس پر مینا سے ملنے لگے۔ اب حالت یہ تھی کہ روزانہ اس دربار پر حاضری ان کا نصب العین بن چکی تھی۔ انہیں اس کے بغیر چین نہیں آ تا تھا۔ وہ مینا کے حسن اور اداؤں کے اسیر ہوچکے تھے۔ ان کا دل چاہتا تھا کہ وہ حسینہ اپنے باقی سب چاہنے والوں کو چھوڑ کر بس ان کی بن جائے۔اور وہ مینا کے اکیلے پجاری بن کر دن رات اس کی پوجا کریں، ان کی تنہائی کی بس وہی ہم نشیں ٹھہرے اور اس مقصد کے لئے انہیں جتنی بھی دولت خرچ کرنی پڑے ، وہ کر نے کے لیے تیارتھے۔ ان کے پاس کون سی کمی تھی دولت کی۔
سینکڑوں بے گناہوں کا قاتل عثمان کردکیسے پکڑا گیا
چوہدری صاحب تو اندھے عشق میں ڈوبے ہوئے تھے لیکن مینا اس کھیل کو کاروبار سمجھ کر انجام دے رہی تھی۔ عشق میں غرق ادھیڑ عمر عاشق نے مینا کو عالیشان بنگلہ خرید کر دے دیا ، نئے ماڈل کی گاڑیاں سمیت بہت کچھ نچھاور کردیا۔ بس چوہدری صاحب کی یہی کوشش تھی مینا ان کے پاس موجود رہے ، لیکن جب کسی کشتی کے ڈونبے کا وقت آجائے اسے کون بچا سکتا ہے۔ جس انسان نے پوری زندگی دورانِ ملازمت کبھی حرام کی طرف نظر اٹھاکر بھی نہ دیکھی ہو وہ اب اپنی عیاشی کے لئے حلال حرام کا فرق بھی بھول چکا تھا، سرکاری فنڈز میں گھپلے اور دیگر ناجائز ذرائع سے مال بنانا شروع کردیا۔ ایک اچھے بھلے باکردار اور قابل سرکاری افسر کے عشق اور بے راہ روی کے چرچے پہلے دوستوں کی محفلوں میں اور پھر ان کے اپنے ادارے میں ہونے لگے۔ لیکن انہیں کچھ ہوش نہ تھا اور نہ ہی پرواہ کہ لوگ کیا کہیں گے ۔ مخلص دوستوں نے چوہدری صاحب کو بہت سمجھایا لیکن وہ ان تمام باتوں سے بہت دور نکل چکے تھے۔ اڑتے اڑتے بات ان کے گھر والوں تک بھی جاپہنچی۔ ماں باپ نے سمجھایا، بیوی بہت روئی لیکن چوہدری صاحب مینا کے عشق میں بالکل اندھے ہوچکے تھے۔ کسی کی نہ سنی۔
ایک دن مجھے چوہدری صاحب کی بیگم صاحبہ کا فون آیا، وہ مجھ سے مینا کے سلسلے میں مدد چاھتی تھیں۔ میں بھی ان کی اہلیہ کو بہن سمجھتا تھا تو مخلصی کے ساتھ معاملے کو حل کرنے کی ٹھان لی۔
میں نے چند مشترکہ دوستوں کے ساتھ مل کر فیصلہ کیا کہ چوہدری صاحب سے بات کرکے انہیں سمجھاتے ہیں اور اس دلدل سے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن جب ان سے بات کی تو وہ سخت برا مان گئے اور اپنے نجی معاملات سے دوستوں کو دور رہنے کی تلقین بھی کرڈالی۔ لیکن ہم لوگ بھی مایوس ہونے والے نہ تھے ، میں نے اپنے ایک انسپکٹر کی ذمہ داری لگائی کہ مینا کے رشتے داروں کا کھوج نکالو تاکہ ان کو ڈرا دھمکا کر چوھدری صاحب سے دور رہنے کا کہا جائے۔ جب مینا کے دو بھائیوں کو بلاکر انہیں سختی سے چوھدری صاحب سے دور رہنے کے لئے کہا تو اس پر بھی وہ بھڑک اٹھے اور مجھے فون کرکے برا بھلا کہا لیکن میں نے انہیں آگے سے کچھ بھی نہیں کہا۔
اب میں نے فیصلہ کیا کہ کیوں نہ مینا سے براہِ راست بات کرلی جائے۔ مینا کراچی کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل کے فٹنس کلب میں ایکسرسائز کے لئے جاتی تھی، میں نے وہیں اس سے ملاقات کی اور سمجھایا کہ وہ بہت خطرناک کھیل کھیل رہی ہے اور اس نے جو کچھ ہتھیانا تھا وہ اس کو مبارک ہو لیکن اب بہت ہوچکا! اسے چوہدری صاحب کی جان اب چھوڑنی ہوگی۔ مینا ایک بہت ہی شاطر عورت تھی اور ایسی عورتیں کبھی کسی پولیس آفیسر سے دشمنی نہیں مول لیتی ہیں ۔ مینا نے بہت ہی ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہایت ہی سادگی اور معصومیت کی اداکاری کرتے ہوئے ایک ایسی بات کردی کہ میں خود بھی پریشان ہوگیا، اس نے انکشاف کیا کہ چوھدری صاحب سے اس کی باقاعدہ شادی ہوچکی ہے اور اب وہ گناہ کی دلدل سے بھی نکل چکی ہے لہذا کوئی پولیس آفیسر کیسے کسی بیوی کو اس کے شوہر سے زبردستی علحیدہ کرسکتا ہے۔
اسی شام کو میرے باس کی کال آئی جنہوں نے بتایا کہ چوھدری صاحب نے ان سے میری شکایت کی ہے یہ کہ میں ان کے نجی معاملات میں مداخلت کررہاہوں۔ میرے باس نے بھی مجھے سمجھایا کہ ’’تم نے ایک اچھے دوست کی حیثیت سے اپنا فرض نبھا دیا ہے اگر کوئی شخص خود ہی اپنی تباہی چاہتا ہے تو کوئی دوسرا کیسے اس کو باز رکھ سکتا ہے لہذا بہتر یہی ہے کہ تم اس کو اس کے حال پر چھوڑ دو‘‘۔
چوھدری صاحب کی اب اپنے پیشہ ورانہ معاملات سے رغبت آہستہ آہستہ کم ہوتے ہوتے تقریبآ نہ ہونے کے برابر ہوچکی تھی۔ وہ اب دن، رات اپنی مینا کے تصور، خیال اور ملاپ میں گزار رہے تھے۔ اب چوہدری صاحب نے مینا کو پابند کردیا کہ وہ اب شوبز کی دنیا اور ناچ گانے کی محفلوں کو خیرباد کہہ کر صرف اور صرف ان کو ہی وقت دے گی، کوئی شوبز یا میڈیا کا آدمی اس کے رابطے میں نہیں ہوگا اور نہ ہی اس کے خاندان کا کوئی فرد اس کے دروازے پر قدم رکھنے کی جسارت کرے گا۔
کسی بھی پیشہ ور کوٹھے والی کی طرح مینا کو بھی اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ اس کا خریدار ایک ہے، چند ہیں یا بہت سے مل کر اسے خریدلیں۔ جنس فروش کی تو بس جنس بکنی چاہیئے اسے تو صرف اپنی قیمت چاہیے ہوتی ہے۔ دن رات بس اب مینا تھی اور چوہدری صاحب تھے۔ سب کچھ لٹانے کے بعد بھی مینا جیسی شاطر عورت کے لئے ان کی حیثیت ایک گاہک کی ہی تھی۔ جبکہ چوھدری صاحب کے لئے ان کی معشوقہ سب کچھ بلکہ کل کائنات کا درجہ اختیار کرچکی تھی ۔ وہ اس کی زلفوں کے ایسے اسیر ہوچکے تھے کہ ان کو اب کسی چیز کی پرواہ نہ رہی تھی ۔ لوگ کہتے ہیں شاید عشق ہوتا ہی ایسا ہے یا پھر اس ناچنے گانے والی مینا کی ادائیں ہی ایسی تھیں جس سے چوہدری صاحب اپنا سب کچھ اس کی چوکھٹ پر قربان کر چکے تھے۔
اب چوہدری صاحب عیاشی میں اس قدر غرق ہوچکے تھے کہ نہ انہیں اپنے گھر والوں کی فکر تھی اور نہ ہی اپنے سرکاری رتبے اور اپنے محکمے کی پرواہ۔ اسی لطف و عیش میں دو تین سال کے گزرگئے ۔ ان کی عیاشیوں اور کرپشن کی بدنامی اس قدر ہوچکی تھی کہ متعلقہ محکمے کے اعلیٰ ترین افسروں نے جو کہ چوہدری صاحب کے ماضی کی اچھی کارکردگی کی بناء پر انہیں پہلے سے مسلسل تنبیہہ کرتے آرہے تھے‘ اب تنگ آکر سزا کے طور پر پوسٹنگ سے ہٹاکر ہیڈکوارٹر میں رپورٹ کرنے کے لئے حکم جاری کردیا اور کرپشن اور دیگر الزامات کے تحت محکمانہ انکوائری کا آغاز بھی کردیا گیا۔
اب چوہدری صاحب کے برے دن شروع ہوچکے تھے اور پریشانی ڈیرہ ڈالنے کے لئے بالکل سامنے تیار نظر آرہی تھی۔ وہ جہاں اپنی خاندانی شرافت اور نیک نامی سے محروم ہوچکے تھے وہیں اپنی خاندانی دولت اور پھر اس کے بعد حرام سے کمائی ہوئی دولت بھی مینا پر لٹا چکے تھے۔ چوہدری صاحب کے زوال کے ساتھ ساتھ مختلف پریشانیاں بھی ان کو گھیر چکی تھیں ۔ محکمہ جاتی انکوائریاں اور کرپشن کے الزامات کی وجہ سے اب وہ ذیابطیس اور ہائی بلڈ پریشر جیسی بیماریوں کا شکار ہوچکے تھے۔ صحت آہستہ آہستہ جواب دیتی جاری تھی اور دولت تقریبا ختم ہوچکی تھی لہذامینا کے تیور بھی بدل چکے تھے اس کوٹھے والی نے اپنے نازو انداز کے نشانے تبدیل کرنا شروع کردیئے تھے۔ چوہدری صاحب کو اپنی بے پناہ پریشانیوں میں گھرا دیکھ کر حسینہ کو اپنی محفلوں کی یاد پھر سے ستانے لگی ۔ اس نے دوبارہ سے چھپ چھپ کر محفلوں کا سلسلہ شروع کردیا ۔
ادھر چوھدری صاحب اپنے خلاف چلنے والی انکوائریوں پر پہلے سے سخت پریشان تھے ایسے میں کسی طرح ان کو خبر مل ہی گئی کہ مینا ان سے بے وفائی کررہی ہے اور چھپ چھپ کر محفلوں میں جارہی ہے ، پھر ایک دن چوہدری نے مینا کو ایک محفل میں رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ دونوں کا زبردست جھگڑا ہوا جس کے بعد ناگن نے اپنا اصل رنگ دکھاتے ہوئے اس گھر کے دروازے ان پر بند کر دیئے جو کبھی انہوں نے ہی خرید کردیا تھا۔ چوہدری صاحب کے لئے معشوقہ کی بے وفائی کسی صدمے سے کم نہ تھی۔
شایدچوہدری صاحب کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ مینا ایسی نکلے گی۔ صدمہ اور دکھ کی تاب نہ لاتے ہوئے دل کے دورے کا شکار ہوکر اسپتال جاپہنچے۔ دو مہینے ہسپتال میں گزارے جہاں بیوی بچےاور پوری فیملی نے ان کی خدمت کی لیکن مینا نے پلٹ کر بھی چوہدری صاحب کی طرف نہیں دیکھا۔ ایک روز چوہدری صاحب کو عشق نے ستایا تو بیماری کے باوجودمینا بنگلے کی چوکھٹ پر جا پہنچے ۔ شام ڈھلنے کو تھی اندر وہی محفل اورناچ گانا ہو رہا تھا لیکن گیٹ پر کھڑے چوکیدار اورمسلح محافظ نے انہیں اندرجانے کی اجات نہیں دی۔ اب ان کا پیغام بھی اندر پہنچانے والا کوئی نہ تھا ، بیماری کی حالت میں مینا مینا پکارتے رہے اور پھر ٹوٹے دل کے ساتھ واپس آگئے۔
میں ان دنوں پولیس انویسٹی گیشن کورس کے سلسلے میں تین ہفتے کی تربیت کے لئے پیرس( فرانس ) گیا ہوا تھا کہ ایک دن مجھے غیرمتوقع طور پر چوہدری صاحب کی کال آئی، وہ مسلسل روئے جارہے تھے ، مجھے ان کو اس طرح سسکیوں کے ساتھ روتے سن کر بڑا دکھ ہورہا تھا، وہ اپنی تمام حرکتوں پر پشیمان تھے اور اپنے کیے پر مسلسل افسوس کرتے جارہے تھے۔ پوری کہانی فون پر مجھے سنائی تو میں بھی فون پر سکتے کی کیفیت میں آگیا! میں نے چوہدری صاحب کو تسلی دی اوریقین دلایا میں تربیت مکمل کرکے اگلے ہفتے پاکستان آجاؤں گا اور پھراس معاملے کو حل کریں گے۔ بس یہ میری اُن سے آخری بات چیت تھی اس کے بعد میں کبھی چوہدری صاحب سے نہیں مل سکا۔
مینا کی بے وفائی کا غم اب چوہدری صاحب کو اندر سے کھائے جارہا تھااور ان کے ذہن میں بس اب ایک ہی بات تھی کہ انہیں اپنے کیے کی سزا ملنی چاہیئے۔
جب چوہدری صاحب اپنی بے وفا مینا کے دروازے سے ناکام واپس لوٹے تو انہوں نے ایک غیر فطری انداز کو اپناتے ہوئے اپنی زندگی ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا اور پھر ایک صبح سارے اخبارات میں تصویر کے ساتھ خبرشائع تھی۔ ’’چوہدری صاحب نے سر میں گولی مار کرخودکشی کرلی‘‘۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئر کریں