The news is by your side.

اک چراغ اوربجھا اورتاریکی بڑھی

اب تک جناب ایم اے راحت کے اس عالم سے فانی سے کوچ کر جانے کی خبر شاید ان کے سب پرستار قارئین تک پہنچ چکی ہوگی۔ وہ گزشتہ لاہور کے جناح ہسپتال میں 3 بجے انتقال کر گئے۔ ان کے کوما میں جانے کی مایوس کن اطلاع بہت پہلے مل گئی تھی۔ وقت ہوتا تو میں ان کے جنازے میں شریک ہوکے اپنا آخری خراج عقیدت پیش کرتا۔وہ میرے پیش رو اورمجھ سے سینئر تھے ۔

قسط نگاری کے فن میں ان کی خداداد صلاحیت کا میں ہمیشہ معترف رہا۔ وہ بیک وقت کئی اقساط کو یکساں مہارت کے ساتھ لکھنے پر قادر تھے اور کسی میں ان کے لاکھوں قارییؑن کی دلچسپی کا عنصر کم نہیں ہوتا تھا۔میں نے ہمیشہ اعتراف کیا اور آج بھی کرتا ہوں کہ اس معاملے میں ان کی ہمسری کی صلاحیت مجھ میں ناپید تھی۔ میں تو ایک وقت میں ایک ہی قسط چلانے کا اہل تھا۔

ساتھ ساتھ انہوں نے ان گنت کامیاب ناول بھی تحریر کیے جن کی صحیح تعداد کا تعین میرے لیے ناممکن ہے۔کچھ نے ایک ہزاراورکچھ نے سینکڑوں کا حوالہ دیا ہے۔


ناول نگارایم اے راحت کی نمازِ جنازہ ادا کردی گئی


 میں صرف حیران ہوسکتا ہوں کہ خدا نے مرحوم کو کیسا زرخیز ذہن اورکیا طاقتور قوت اظہار دی تھی۔ بقول شاعر کہ ’’تجھ سا کہاں سے لائیں کہ سب اچھا کہیں جسے‘‘۔ جب میں نے 46 سال قبل کہانی کے سفر آغاز کیا تو وہ بھی میرے پیش رو تھے۔اب کتنے نام لوں کہ جو ماضی کا حصہ ہوئے۔محی الدین نواب‘ الیاس سیتا پوری‘ قیوم شاد‘ ش م جمیل‘ خان آصف‘ شمیم نوید‘ علیم الحق حقی‘ اقبال کاظمی‘ اظہر کلیم اورآخر میں کاشف زبیر جو سب سے جونیئر تھا۔ کوئی نہیں رہا۔ ایک ایک کرکے ہوائے اجل نے سب چراغ گل کردئے اور اب صدیوں کا بیٹا ایم اے راحت بھی ماضی کا حصہ ہوئے۔ سب فکشن کی دنیا کے روشن چراغ تھے جن کا اجالا باقی ہے۔

زمانے کا چلن ہے سب کو بھلا دیتا ہے،وقت آگے بڑھ جاتا ہے۔۔ہم بھی کیا کر سکتے ہیں، ’’موت سے کس کو رستگاری ہے‘‘۔ آئیے! میرے ساتھ آپ بھی اس عظیم مصنف کے لۓ دعائے مغفرت کیجیے جس نے اپنی زندگی لاکھوں قارعین کے ذوق مطالعہ کو تسکین کا ساماں فراہم کرنے کی جدو جہد میں صرف کی۔ یہ ایک صدقۂ جاریہ ہے۔۔جب تک ان کی کہانیاں پڑھی جاتی رہیں گی ثواب ان کی روح کو پہنچتا رہے گا۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں