The news is by your side.

نرس ، انسانیت اورغم گساری کی پہچان

غم گساری ، ہمدردی اور تیمارداری ان تینوں لفظوں کو اگر یکجا کر لیں تو ذہن میں ایک ہی تصور کسی بھی مسیحا کا آتا ہے یوں تو ہمارے اردگرد بہت سے لوگ مسیحائی کا دعوی کرتے ہیں لیکن کچھ مخصوص پیشے ایسے ہوتے ہیں جن کا ہمدردی اور غم گساری سے براہ راست ایک تعلق ہوتا ہے۔ انہی تیمار داروں اور ہمدردوں میں سے ایک نام ’’نرس ‘‘ کا بھی ہے ۔

نرسوں کا عالمی دن ہر سال ۱۲ مئی کو منایا جاتا ہے اور اس تاریخ کو منانے کا مقصد نرسنگ کے شعبے میں نمایاں خدمات سرانجام دینے والی برطانوی خاتون فلورنس نائی ٹینگل کو خراج عقیدت پیش کرنا ہے۔ ۱۲ مئی ان کا یوم پیدائش بھی ہے۔ فلورنس نائی ٹینگل کو اس لئے بھلایا نہیں جا سکتا کیونکہ یہ جدید نرسنگ کی بانی ہیں انھوں نے ۱۸۵۴ کی جنگ میں صرف ۳۸ نرسوں کی مدد سے ۱۵۰۰ زخمی اور بیمار فوجیوں کی دن رات تیمار داری کی۔

نرسوں کا عالمی دن منانے کا فیصلہ نرسوں کی بین الاقوامی تنظیم ( آئی سی این ) نے کیا اور یہ دن ۱۹۶۵ سے منایا گیا تاہم باقاعدہ طور پر اس دن کو منانے کا فیصلہ ۱۹۷۴ میں ہوا۔ اس دن کو باضابطہ طور پر منانے کے فیصلے کی قرارداد پر امریکی صدر ریگن نے ۱۹۸۲ میں دستخط کئے تاہم اس حوالے سے تاریخ کے تعین میں اختلاف بھی رہا۔

پہلے امریکن نرسنگ ایسوسی ایشن نے اس دن کو ۸ مئی کو منانے کا اعلان کیا لیکن بعد ازاں فلورنس کے یوم پیدائش ۱۲ مئی کو اس دن کو منانے کا فیصلہ کیا گیا ۔ ۲۰۱۶ میں اس دن کی تھیم A force for changeیعنی تبدیلی لانے کی قوت  رکھی گئی ہے۔

نرسنگ کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ “اگر آپ کسی ایک فرد کی جان بچاتے ہیں تو آپ ایک ہیرو ہیں لیکن اگر آپ سو انسانوں کی زندگیاں محفوظ بناتے ہیں تو آپ ایک نرس سا گداز دل رکھتے ہیں۔

پاکستان کی بات کریں تو یہاں نرسنگ کے شعبے کی بنیاد بیگم رعنا لیاقت علی خان نے رکھی جس کے بعد ۱۹۴۹ میں سینٹرل نرسنگ ایسوسی ایسشن اور ۱۹۵۱ میں نرسز ایسوسی ایشنز کا قیام عمل میں آیا۔ پاکستان میں نرسنگ کونسل کا قیام ۱۹۴۸ میں عمل میں آیا جو بذات خود ایک خود مختار ادارہ ہے۔ یہ ادارہ پاکستان نرسنگ کونسل ایکٹ ۱۹۵۲ اور ۱۹۷۳ کے تحت نرسوں اور مڈ وائف کو لائسنس دینے کا اختیار بھی رکھتا ہے۔

پڑوسی ایران میں یکم شعبان کو حضرت بی بی زینب سلام اللہ علہیہ کے یوم ولادت کی مناسبت سے ’’یوم نرس ‘ سے ماخوذ کیا جاتا ہے کہ میدان کربلا میں اپنے بھائی اور ان کے جان نثاروں کی شہادت کے بعد انھوں نے کربلا کی جنگ میں بچ جانے والے بے سہارا بچوں کی دلجوئی کی اور زخمیوں کو سہارا دیا۔ دنیا بھر کے مقابلے میں اگر پاکستان میں دیکھا جائے تو یہاں نرسنگ کا مستقبل اتنا روشن نہیں ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ ان کی تدریس اور تربیت کے نہ تو باقاعدہ ادارے ہیں اور نہ ہی سہولیات اور ساتھ ہی معاشرے میں بہت سے غلط قسم کے تصوارت بھی موجود ہیں جس کی وجہ سے نرسنگ کے مقدس پیشے کو بدنام کیاجاتا ہے اور ہمارے بہت سے اچھے گھرانوں کی لڑکیاں یہ شعبہ اختیار نہیں کرتیں ۔

نرسوں کے بارے میں یہ تصور کر لیا جاتا ہے کہ صرف خواتین ہی اچھی نرس ثابت ہو سکتی ہیں جبکہ ایسا نہیں کئی وارڈ بوائے اور میل سٹاف نرس بھی اپنی خدمات لڑکیوں سے اچھی سرانجام دے رہے ہیں۔ اب آجاتا ہے لوگوں کا نرسوں کے ساتھ رویہ جو کہ اکثر بہت ہی توہین آمیز ہوتا ہے اور انھیں معمولی فرد سمجھ کر ٹریٹ کیا جاتا ہے جو درست نہیں۔

یہاں میں ایک بات ضرور کہنا چاہوں گی کہ نرسنگ بے شک ایک مقدس پیشہ ہے تاہم نرسوں کو بھی اس پیشے کے تقدس کا خیال ہونا چاہیے کیونکہ بہت سے اسپتالوں میں مریض پریشانی میں ہوتے ہیں اور نرسیں سنی ان سنی کرکے اپنے روم میں موجود ہوتی ہیں ۔ انھیں اپنے فرائض منصبی کا احسا س ہونا چاہیے۔

نرسوں کا عالمی دن صرف نرسوں پرہی ذمہ داریاں عائد نہیں کرتا بلکہ ہمیں نرسوں کا احترام کرنا سیکھنے کا درس بھی دیتا ہے ۔ نرسوں کو بھی یہ سکھاتا ہے کہ یہ مریض ان کی ذمہ داری ہیں ، ان سے پیار اور محبت کا برتاؤ کرنا ہی اصل میں انسانیت کی معراج ہے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں