یہ بات سچ ہے 1988 سے لیکر 2015 تک ملک میں ہونے والے عام انتخابات ہوں یا بلدیاتی انتخابات ملک بھر میں اگر کسی شہر کے انتخابی نتائج کے حوالے سے سب سے زیادہ چہ مگوئیاں اور انتظار کیا جاتا ہے تو وہ کراچی ہے حالانکہ کراچی کی نشستیں کبھی بھی ملک میں اور نہ کبھی صوبے میں تبدیلی کا باعث بنی ہیں نہ آگے اس کا کوئی آسرا نظر آتا ہے کیونکہ ملک کا انتخابی نظام جس طرح سے ترتیب دیا گیا ہے اس میں صرف صوبہ پنجاب سے ہی ہمیشہ تبدیلی آئی ہے اور آئندہ بھی وہیں سے آئے گی خیر موضوع تبدیل نہ ہو جائے اس لئے انتخابی نظام پر پھر کبھی بات ہوگی ابھی کراچی کی ہی بات کرتے ہیں جو ہر بار کسی نہ کسی صورت میں پورے ملک میں انتخابی نتائج کی صورت میں سرپرائز دیتا نظر آیا ہے ، شہر نے ہمیشہ جس تنظیم اپنی پلکوں پر بٹھایا ہے وہ ایم کیو ایم تھی جو اب کئی ٹکروں میں بٹی نظر آتی ہے حالات کچھ بھی رہے ہیں کیسے بھی مشکلات آئی ہوں کراچی کے شہری نے جب اپنی مٹھی کھولی ہے تو اپنا فیصلہ ایم کیو ایم کے حق میں ہی سنایا ہے۔
ان حالات میں بھی جب ایم کیو ایم کے پاس پولنگ ایجنٹ موجود نہیں ہوتے تھے امیدوار کھڑے تو کر دیے جاتے تھے لیکن حالات کے پیش نظر الیکشن مہم نہیں کرپاتے تھے اور ملک بھر میں یہ ہی چرچہ ہوتا تھا کہ اس بار تو ایم کیو ایم کا کراچی کی نشستیں جیتنا مشکل ہوجائے گا لیکن عوام کا فیصلہ اس کے بر عکس آتا رہا ہے 2013 کے عام انتخابات کو ہی یاد کرلیتے ہیں جب کالعدم تحریک طالبان نے اے این پی ، پیپلز پارٹی اور
ایم کیو ایم کی الیکشن مہم کو نشانہ بنانے کا بیان جاری کیا تھا اور ان جماعتوں کو نشانہ بنایا بھی گیا اس وقت بھی کراچی کا اکثریتی فیصلہ ایم کیو ایم کے حق میں ہی آیا یہاں میں لفظ اکثریتی اس لئے استعمال کر رہا ہوں کیونکہ 2013 میں ملک بھر کی طرح پی ٹی آئی نے بناکسی الیکشن مہم کے شہر کے تقریباً تمام حلقوں میں ہی ایم کیو ایم کو کافی ٹف ٹائم دیا تھا لیکن بہرالحال ایم کیو ایم ہی شہر کی تقریباً 70 فیصد سے زائد نشستوں پر فاتح قرار پائی۔
اس کے بعد کراچی کا ایک اور تاریخی ضمنی انتخابات ہوا تھا جس وقت ایم کیو ایم کراچی آپریشن کی وجہ سے شدید ترین دباؤ کا شکار تھی جی ہاں این اے 246 کے ضمنی انتخاب کی ہی بات کر رہا ہوں اس وقت بھی یہی گمان کیا جا رہا تھا کہ رینجرز کے آپریشن سے ایم کیو ایم کی ساکھ پر بہت فرق پڑا ہے اور اس بار انتخابات جیتنا مشکل ہوگا اور اگر جیت بھی گئی تو ووٹرز کا ٹرن آؤٹ بہت کم رہے گا لیکن شہر کراچی کے لوگوں کا یہ فیصلہ ملک بھر کے لئے حیران کن رہا تھا جب ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ کوئی جماعت لگ بھگ 1 لاکھ ووٹ لے کر ضمنی انتخاب جیتی ہوگی اور مخالف امیدوار نے بھی 40 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے تھے اس کے بعد مرحلہ آیا تھا بلدیاتی انتخابات کا جس میں ایم کیو ایم کا نامزد میئر جیل میں تھا اور ایم کیو ایم اپنا سیاسی مرکز نائن زیرو بھی کھوچکی تھی تو یہ ہی خیال کیا جارہا تھا کہ اس مرتبہ ایم کیو ایم اپنا میئر نہیں لا سکے گی اسے مخلوط حکومت ہی بنانی ہوگی لیکن بلدیاتی انتخابات کا نتیجہ بھی بہت حیران کن تھا ایم کیو ایم نے محض 165 امیدوار کھڑے کیے تھے جن میں سے 140 سے زائد نے نشستیں جیت لیں اس دن ملک بھر کے لوگوں نے اگر کسی شہر کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج کا انتظار کیا تھا تو وہ بس کراچی ہی تھا کیونکہ بیک وقت سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے جس میں کراچی کے علاوہ تمام شہروں کے نتائج کا عوام کو بخوبی اندازہ تھا کی پنجاب میں میدان کس نے مارنا ہے سندھ میں کون جیتے گا۔
لوگوں کے اندازے ٹھیک بھی رہے صرف کراچی کو چھوڑ کر کراچی نے ایک مرتبہ پھر ملک بھر کے لوگوں کو اپنا فیصلہ سنا کر سرپرائز دیا مجھے آج بھی وہ ریلی یاد ہے جو میں نے الیکشن والے دن رات کو کچھ 1 بجے دفتر سے واپسی پر عائشہ منزل کے قریب دیکھی تھی جس میں کافی جوش خروش دیکھنے کو ملا تھا ، ریلیوں میں جوش و خروش عام سی بات ہے مگر یاد رہے کچھ ہی روز قبل نائن زیرو پر چھاپہ پڑا تھا اور اسے سیل کردیا گیا تھا جس کے بعد ایم کیو ایم کے لئے حالات کافی پریشان کن تھے ایسے حالات میں اتنی بڑی ریلی کا دیکھنا میرے لئے بھی حیران کن تھا اسی لئے اس کا یہاں ذکر کر رہا ہوں ، یہ سب تو ہوگئے ماضی کے قصے لیکن اب ایک بار پھر انتخابات کا وقت قریب آرہا ہے ایسے میں کراچی میں تمام جماعتیں ہی سر گرم ہوگئی ہیں ، ایم کیو ایم اپنے قائد سے محروم ہو چکی ہے کراچی والے اب اس ایم کیو ایم کو ووٹ دیتے ہیں یا نہیں کچھ نہیں پتا۔ متحدہ کے قائد ملک مخالف نعروں کے بعد اسکرین سے بالکل غائب ہوچکے ہیں اورایم کیو ایم لندن نامی سیٹ اپ گراؤنڈ پر موجود ہی نہیں ہے ایسے میں پاک سرزمین پارٹی کا ابھر کر سامنے آنا عوامی ایشوز پر سیاست کرنا اور سیکڑوں مہاجر لڑکوں کی بازیابی اور رہائی ان کے حق میں جاسکتی ہے پھر مختلف علاقوں کا تنظیمی ڈھانچہ بھی ان کے پاس آچکا ہے جو انتخابات میں لوگوں کو پولنگ بوتھ تک لیجانے میں خوب کام آتا ہے یہ بھی ان کو شہر میں بہت کچھ دلا سکتا ہے۔
ایسے میں جماعت اسلامی نے بھی الیکشن سے قبل کے الیکٹرک کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع کرکے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھا ہے جس کا پھل ان کو انتخابات میں مل سکتا ہے ان سب کے درمیان پاکستان تحریک انصاف نے بھی اس مرتبہ لوہے کو کاٹنے کے لئے لوہے کا ہی انتظام کیا ہے ، تحریک انصاف کراچی کے معاملات اردو اسپیکنگ لیڈران علی زیدی، عمران اسماعیل ، فردوس شمیم نقوی وغیرہ کے سپرد کیے گئے ہیں جو کہ مہاجر عوام میں کافی پذیرائی بھی حاصل کر رہے ہیں جس کا میں خود گواہ ہوں۔ تحریک انصاف کا یہ کارڈ ان کے بہت کام آسکتا ہے اب بس دیکھنا ہے یہ کہ اس مرتبہ کراچی اپنا فیصلہ کس کے حق میں سناتا ہے، یہ بات بالکل سچ ہے کہ کراچی کا ووٹر اس وقت انتہائی کنفیوژن کا شکار نظر آتا ہے اور اسے فیصلہ کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے لیکن فیصلہ جو بھی ہو میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ اس مرتبہ بھی کراچی اپنے فیصلے سے ملک بھر کو سرپرائز دے گا۔