The news is by your side.

دائیں ہاتھ سے محروم دنیا کاسب سے بڑا نشانے باز

’’ میں یہاں تمھارا حوصلہ بڑھانے نہیں بلکہ تم سب سے مقابلہ کرنے آیا ہوں ۔ ‘‘ یہ الفاظ بہت عرصہ پہلے دنیا کے بہترین پسٹل شوٹرکیرولی ٹیکاکس کے ہیں لیکن آج

بھی یہ حروف عزم و ہمت کی ایک نئی داستان رقم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

شاید اس لئے کہ ہمت ہارنے والوں کے پاس کسی بھی کام کو نہ کرنے کے بہت سے بہانے ہوتے ہیں جبکہ دوسری طرف حوصلہ کی علامت بننے والے انسانوں کے پاس کسی بھی ایک کام کو کرنے کی چاہے ایک ہی وجہ کیوں نہ ہو وہ اسی وجہ پر قائم رہتے ہیں اور اپنی ہمت کی بدولت ہی ترقی کے زینے طے کرتے جاتے ہیں اور کسی قسم کی کوئی مجبوری ان کے آڑے نہیں آتی ۔

تو یہ کہانی ہے ہنگری آرمی کے ایک فوجی کی ، جن کا نام تھا کیرولی ٹیکاکس ، جنہوں نےاب تک ملک میں ہونے والی تمام نیشنل چمپئین شپ میں کامیابی حاصل کی تھی اور اب ۱۹۴۰ میں ہونے والے اولمپکس میں گولڈ میڈل کے لئے انھیں ہی فیورٹ قرار دیا جا رہا تھا ۔

سنہ ۱۹۴۰ کے اولمپکس میں صرف دو سال رہ گئے تھے لیکن ۱۹۳۸ میں آرمی کے ایک ٹریننگ کیمپ میں ان کے دائیں ہاتھ میں ہینڈ گرنیڈ پھٹ گیا اور وہ اپنے اسی ہاتھ سے محروم ہو گئے جس سے وہ دنیا بھر کے بہترین پسٹل شوٹر کہلاتے تھے ۔

کیرولی کے پاس اب دو ہی راستے بچے تھے یا تو اس صورتحال پر روتے رہتے، یا ہمت و حوصلے سے مقابلہ کرتے ، لیکن کیرولی نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا ، انہوں نے مشکل کا راستہ چنا ، ہمت کا راستہ چنا ، سو ایک مہینے کے علاج کے بعد بائیں ہاتھ سے ٹریننگ نے ان کو اس قابل بنا دیا کہ اب وہ مقابلے کی قوت رکھتے تھے ۔سنہ ۱۹۳۹ میں ہونے والے نیشنل چمپئین شپ میں کیلری جب میدان میں اترے تو وہاں موجود کھلاڑیوں نے انھیں خوش آمدید کہا اور کہا کہ ’’ یہی سپورٹس مین شپ ہے کہ آپ ہمارا حوصلہ بڑھانے آگئے ہیں ، یہ آپ کی کھیل سے محبت ہے اگرچہ کہ آپ کا ہاتھ بھی نہیں ۔ ‘‘ کیلری نے مسکراتے ہوئے کہا ’’ میں تمھارا حوصلہ بڑھانے نہیں بلکہ تم سے مقابلہ کرنے آیا ہوں ، اب تم مجھ سے مقابلے کے لئے تیار ہو جاؤ ۔ ‘‘ اور یہ بتانے کی بات تو نہیں ہے کہ اس چمپئین شپ میں فاتح کیرولی قرار پایا ،وہی کیرولی جو ایک ہاتھ سے محروم تھا اور اب ایک ہاتھ سے مقابلہ کر رہا تھا ،جس ہاتھ سے وہ لکھ بھی نہیں سکتا تھا ، اپنے بائیں ہاتھ سے بہترین پسٹل شوٹر بنا ۔

قصہ مختصر کہ ۱۹۴۰ اور ۱۹۴۴ کے اولمپکس دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے کینسل ہو گئے ، آخر ۱۹۴۸ میں کیلری کی عمر اڑتیس سال ہو چکی تھی ،ا ب ان کامقابلہ بہت نوجوان کھلاڑیوں سے تھا جو یقینا بہت مشکل تھا ۔ لیکن کیرولی پھر بھی نہیں ہارا ، ورلڈ کے بیسٹ شوٹر ز میں صرف وہی جیتا جس کا صرف ایک ہاتھ تھا ۔

ایک بار پھر سنہ ۱۹۵۲ میں بھی مقابلہ ہوا، اس مرتبہ کیلری نے گولڈ میڈل جیتا ، اور لگاتار دو گولڈ میڈل حاصل کئے ، پسٹل شوٹنگ کی تاریخ میں کیلریکا نام بھلایا نہیں جاسکتا ، کیونکہ آج تک ان کے سوا دنیا کی تاریخ میں کوئی بھی پسٹل شوٹر نہیں جس کو لگاتار دو گولڈ میڈل ملے ہوں ۔کیرولی کی ہمت نے ان پر فتح کے دروازے کھول دئیے ، جیت تو جیسے انہی کا مقدر بن گئی ، اگر اس وقت کیلری حوصلہ ہار کر دل چھوٹا کر کے بیٹھ جاتے تو نہ صرف وہ خود کو کمزور ثابت کرتے بلکہ پوری دنیا بھی ایک بہترین پسٹل شوٹر کی صلاحیتوں سے محروم رہ جاتی ۔

تو کہنا یہی ہے کہ ہم دنیا میں چھوٹے چھوٹے مسائل سے گھبرا کر زندگی کی اصل کامیابی سے بہت دور چلے جاتے ہیں ، جبکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے کہ ’’ مصیبت میں گھبرانا خود بڑی مصیبت ہے۔‘‘

تو آئیے آج خود سے عہد کریں کہ ہم اپنے عزم و حوصلے کو ہمیشہ بلند رکھیں گے اور خود کو کامیاب ثابت کرنے کے لئے نہ صرف اپنا حوصلہ بڑھائیں گے بلکہ اپنے اردگرد افراد کی مدد کو بھی اپنا فرض سمجھ لیں گے ۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں