خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے یقیناً پاکستان تحریک انصاف کی صفوں میں ہنگامہ اور تذبذب کی سی کیفیت پیدا کی ہوئی ہے-
ایک ایسی پارٹی جو دو ہزار تیرہ میں اپنے پارٹی سربراہ عمران خان کی انقلابی، اصلاحی و فلاحی سوچ اور نظریہ کے باعث خیبر پختونخوا میں اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائے اور اس دوران اپنی کارکردگی اور عوامی مقبولیت کی بناٗ پر 2015 میں مقامی حکومتوں کے انتخابات میں نو ناظمین کی کامیابی کے ساتھ سب سے بڑی اور جمعیت علماٗ اسلام کے ساتھ پانچویں بڑی جماعت کے طور پر ابھری اور یہی نہیں پی ٹی ائی کی عوامی مقبولیت نے دو ہزار اٹھارہ میں میں ایک سیاسی تاریخ رقم کی جب کوئی بھی سیاسی پارٹی دوسری مرتبہ بھاری اکثریت سے صوبے میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی اس کے لئے اپنے ہی بنائے مقامی حکومتوں کے قانون کے تحت انتخابات کرانا ایک ڈرائونا خواب ثابت ہوا جس میں پی ٹی آئی نے بارہ تحصیلوں پر جیت کر دوسری پوزیشن حاصل کی اور جمیعیت علماٗ اسلام جو دو ہزار اٹھارہ سے پی ٹی ائی حکومت کے خلاف تحریک جاری رکھے ہوئے ہیںاس نے اکیس چئیرمین نشست حاصل کر کے پہلی پوزیشن حاصل کرلی-
گوکہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے خیبر پختونخواہ میں اپنے فلاحی پروگرام کے تحت صحت انصاف کارڈ اور پشاور میں بس ریپیڈ ٹرانسپورٹ منصوبے سمیت متعدد منصوبے شروع کئے پولیس کی کارکردگی کو بہتر بنایا اور سابق قبائیلی علاقے کے انضمام اور وہاں انتظامی نطام سمیت صوبائی اسمبلی کی نشستوں مقامی حکومتوں کے لئے انتخابات کو یقینی بنایا لیکن انتظامی سطح پر غیر موثر حکمرانی ، سوائے وزیراعلی محمود خان اور چند وزراٗ کے علاوہ باقی پارٹی کی قیادت کا ورکروں سے لاتعلق ہونا اور موثر وعوامی رابطہ کے فقدان پارٹی مقبولیت میں کمی کا سبب بنے اور مقامی حکومتوں کے انتخابات پارٹی کی مایوس کن کاردکرگی کی جب تحقیقات کی گئی تو اس میں جو محرکات سا منے ائے ان میں بتایا گیا کہ دیگر وجوہات کے علاوہ مہنگائی نے پارٹی کی شکست میں بڑا کردارادا کیا ہے۔
انتخابات کرانے کا وقت بھی پی ٹی آئی کو لے ڈوبا کیونکہ انتخابات ایسے وقت میں کرائے گئے ہیں جبکہ مہنگائی عروج پر معیشت ہچکولے کھارہی ہے۔اور پارٹی کے اندرونی اختلافات و مہنگائی نے پارٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے جبکہ 2018 میں تحریک انصاف کو جیت دلوانے والے کھلاڑیوں نے بھی انہی وجوہات کی بنا پر ووٹ دینے سے گریز کیا اور الیکشن ٹرن آئوٹ انتہائی کم رہا –
رپورٹ میں سترہ اضلاع میں ہونے والے مقامی حکومتوں کے انتخابات میں پی ٹی ائی کا کارکردگی اور ناکامی کی ضلع کی سطح پر تفصیلات بھی درج ہیں –
ضلع پشاور
تحریک انصاف نے سات میں سے صرف ایک نشست جیتی ہے۔ ناظم پشاور کے لئے سیٹ کا ٹکٹ گورنرخیبرپختونخوا شاہ فرمان،تیمور جھگڑا،کامران بنگش اور فضل الٰہی کے کہنے پر دیا گیایہ سیٹ ہم نے انتہائی کم مارجن سے ہاری ہے جس کی وجہ ارباب شہزاد کی فیملی کی جانب سے جے یو آئی کے امیدوار کی حمایت ہے۔ بڈھ بیر تحصیل کی سیٹ ہم نے رکن اسمبلی ناصر موسیٰ زئی اور گورنر کے درمیان چپقلش کے باعث ہاری۔ متھرا تحصیل کی نشست ہم نے رکن اسمبلی نورعالم اور ارباب وسیم کی جانب سے مخالف امیدوار کی حمایت کی وجہ سے ہاری۔پشتخرہ تحصیل کا ٹکٹ بھی گورنر کی جانب سے امیدوار کو دیا گیا جو جے یو آئی کے امیدوار سے ہار گیا-
ضلع چارسدہ
چارسدہ کا ٹکٹ رکن اسمبلی فضل محمد خان کے کہنے پر ایک غیرمعروف اور کمزور امیدوار کو دیا گیا جسے اراکین صوبائی اسمبلی کی جانب سے کوئی سپورٹ حاصل نہیں تھی اور صوبائی وزیر فضل شکور نے اس امیدوار کی بھرپور مخالفت کی-
ضلع خیبر
وفاقی وزیر نورالحق قادری اور اقبال آفریدی کی جانب سے ٹکٹ ایک کمزور امیدوار کو دی گئی اور ایم پی اے شفیق نے اس امیدوار کو سپورٹ کرنے سے انکار کردیا جس کا نتیجہ شکست کی صورت میں نکلا-
ضلع مہمند
مقامی ذرائع اور رکن قومی اسمبلی ساجد خان کے کہنے پر امیدواروں کو ٹکٹ جاری کئے گئے جہاں تحریک انصاف صرف ایک سیٹ جیت سکی کیونکہ باقی امیدوار اپنے علاقوں میں غیرمعروف تھے-
ضلع مردان
عاطف خان کے حمایت یافتہ امیدواروں کو ٹکٹ دیئے گئے جو کمزور ثابت ہوئے اور پارٹی ورکرز و پارلیمنٹیرینز سے اس حوالے سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی-
ضلع صوابی
4 تحصیلوں میں تحریک انصاف صرف ایک سیٹ جیتنے میں کامیاب رہی۔ ٹکٹ سپیکر اسد قیصر، صوبائی وزیر شہرام ترکئی کے کہنے پر دیئے گئے اور امیدوار اپنی سیٹیں ہار گئے
ضلع کوہاٹ
میئر کی سیٹ پر امیدوار سے ٹکٹ واپس لیا گیا جس نے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا اور جے یو آئی سے انتہائی کم مارجن سے سیٹ ہاری۔ ٹکٹ واپس لینے کا فیصلہ سیف اللہ نیازی، شہریار آفریدی کے کہنے پر واپس لیا گیا اور تحریک انصاف کے رکن قومی اسملبی نے بھی اس رکن کی مخالفت کی اور ہار ہوئی۔ کمزور امیدوار کو ٹکٹ دینا اور اندرونی خلفشار ہار کی وجہ بنے اور تحریک انصاف صرف ایک ہی سیٹ جیتنے میں کامیاب رہی بصورت دیگر پورا ضلع پی ٹی آئی کا ہوسکتا تھا
ضلع کرک
ٹکٹ ایم این اے شاہد خٹک کے کہنے پر دیئے گئے، دوتحصیلوں میں تحریک انصاف کو فتح ہوئی جبکہ ایک سیٹ پر دوبارہ پولنگ کی جائیگی
ضلع ہنگو
ٹکٹس مقامی اراکین اسمبلی کے کہنے پر کمزور امیدواروں کو دیئے گئے جس کی وجہ سے ضلع میں تحریک انصاف کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا
ضلع بنوں
یہ ضلع جے یو آئی کے اکرم درانی کا آبائی علاقہ ہے جہاں جے یو آئی کی پوزیشن انتہائی مستحکم ہے۔ تحریک انصاف اس کے باوجود بنوں سٹی میں جے یو آئی کو دن میں تارے دکھانے اور دو تحصیل چیئرمین کی سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہی۔ ایک تحصیل میں دھاندلی کی شکایات اور جھگڑوں کی وجہ سے انتخاب ملتوی کیا گیا ہے ۔صوبائی وزیر شاہ محمد نے ان علاقوں میں پارٹی کے امیدواروں کی کوئی سپورٹ نہیں کی
ضلع لکی مروت
چارتصیلوں میں تین سیٹیں رکن صوبائی اسمبلی ہشام انعام اللہ (سیف اللہ گروپ) کے حمایت یافتہ آزاد امیواروں نے جیت لیں۔ پی ٹی آئی کے ٹکٹ علاقے میں علی امین گنڈاپور کے کہنے پر دیئے گئے جس کا ہشام انعام اللہ کو رنج تھا اور انہوں نے آزاد امیدواروں کی کھل کر سپورٹ کی ورنہ لکی مروت میں تمام سیٹیں تحریک انصاف کے لئے جیتنا آسان تھا
ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن
ٹکٹیں علی امین گنڈاپور کے کہنے پر دی گئیں۔ سٹی میئر کا الیکشن ایک امیدوار کے قتل کے باعث ملتوی کیا گیا ہے جبکہ باقی ماندہ 5 تحصیلوں میں تحریک انصاف صرف ایک سیٹ جیتنے میں کامیاب رہی جبکہ دو تحصیلوں میں آزاد، اور دیگر دو میں ایک جماعت اسلامی اور ایک پیپلز پارٹی جیتنے میں کامیاب رہی
ضلع ٹانک
علی امین گنڈاپور کے حمایت یافتہ دو امیدواروں کو ٹکٹ دی گئیں اور دونوں تحصیلوں میں پی ٹی آئی کو ہار ہوئی
ملاکنڈ ڈویژن
ضلع بونیر
وزیراعلی محمود خان کے حمایت یافتہ امیدواروں کو ٹکٹ دی گئیں اور ضلع بھر میں تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کی
ضلع باجوڑ
دونوں تصیلوں میں پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی نے پارٹی کے امیدواروں کی کوئی سپورٹ نہیں کی اور شکست ہمارا مقدر بنی۔ ایم این اے گل ظفر نے پارٹی کے امیدوار کی حمایت کرنے کی بجائے آزاد امیدوار کو سپورٹ کیا ۔رکن قومی اسملبی گل داد اور ان کے بھائی جو پارٹی کے رکن اسملبی ہیں نے بھی پی ٹی آئی کے امیدواروں سے ہاتھ کھینچ لئے ۔صوبائی وزیر انور زیب نے ان نامساعد حالات کے باوجود پارٹی کے امیدواروں کی بھرپور سپورٹ کی ان کی اس کاوش کو سراہا جانا چاہئے
ضلع ہریپور
ہریپور میں مسلم لیگ ن کے امیدواروں کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ایوب برادران نے امیدواروں کو ٹکٹ جاری کئے لیکن کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت کا انحصار
گوکہ بلدیاتی انتخابات میں پارٹی ضلع اور تحصیل چئیرمین کے نتائج کے روشنی میں جمعیت علما اسلام کے بعد دوسری بڑی جماعت کی حیثیت حاصل کی لیکن ان انتخابات میں تمام مخالف ہوائوں کے باوجود تحریک انصاف اٹھ لاکھ اٹھالیس ہزار ایک سو بائیس ووٹ حاصل کر کے تمام سیاسی جماعتوں سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی جبکہ جے یوئی نے اٹھ لاکھ پینتیس ہزار تین سو چوراسی ، عوامی نیشنل پارٹی پانج لاکھ تئیس ہزار چھیانوے ، مسلم لیگ نواز دو لاکھ ستر ہزار ایک سو پینسٹھ ، پیپلز پارٹی دو لاکھ چھیتر ہزار چھ سو چھتیس اور جماعت اسلامی نے دو لاکھ تیرہ ہزار تین سو دس ووٹ حاصل کئے تو اس تناظر میں اگر ۔مہنگائی میں کمی آنے پارٹی کے رہنمائوں میں چپقلش کے خاتمے اور پارٹی کارکنوں کے احساسات و جزبات کی قدر ، مشاورت میں پارٹی رہنماوں اور بہتر تنظیمی ڈھانچہ کے قیام کے بعد پارٹی کی پوزیشن صوبے میں پھر سے مستحکم ہو نے کے امکانات موجود ہیں
پی ٹی ائی کی تحقیقاتی رپورٹ کا مسقبل
تجزیہ نگاروں کے مطابق رپورٹ میں جن ممبران قومی اسمبلی کا ذکر کیا گیا ان کے خلاف تادیبی کاروائی کے امکانات اس لئے کم ہیں کیونکہ قومی اسمبلی میں پارٹی کی عددی حیثت اس قابل نہیں کہ ان ممبران اسمبلی کے خلاف کاروائی کی جائے اسی لئے میڈیا پر انکو ایکسپوز کیا گیا تاکہ ورکروں میں مایوسی نہ پھیلے ۔
البتہ خیبر پختونخواہ حکومت کو چونکہ اسمبلی میں اکثریت حاصل ہے اس لئے یہاں وزیراعظم عمران وزیراعلی محمود خان کو کاروائی کی ہدایت کرسکتے ہیں ۔ کیونکہ اس سے قبل وزرا کو وزرارتوں سے ہٹایا گیا ہے اس کے علاوہ بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی ائی کی شکست کے تناظر میں وہ ممبران قومی و صوبائی اسمبلی جنہوں نے پی ٹی ائی کی مقبولیت کو دیکھ کر اس میں شمولیت اختیار کی تھی ائندہ عام انتخابات سے قبل پارٹی کو چھوڑ کر دیگر مقبول پارٹیوں کا رخ کرسکتے ہیں اور گورنر خیبر پختونخواہ جو پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما اور وزیر اعظم عمران خان کے قریبی ساتھی ہیں انہوں نے بلدیاتی انتخابات کے نتائج آنے کے بعد اے ار وائے نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ پارٹی کو حجروں سے نکال کر کارکنوں کو واپس دے کر انکو عزت اور اہمیت دینی ہوگی اور جو دیگر پارٹیوں کو چھوڑ پر پی ٹی ائی پر اپنا تسلط قائم کیا ہے ان سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا –