میں چھوٹا ہُوں …
محنت کی بھٹی میں تپ کر بھی
سکہ کھوٹا ہُوں!
(زرّیں )
ایک نہیں تمام محنت کش بچّے اس مُضحکہ خیز المیے کا شکارہیں۔ بچّوں سے جبری مشقت پس ماندہ اور ترقی پذیر ممالک کی میراث ہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک کی سوغات بھی ہے۔ دنیا میں محنت کش بچّوں کی تعداد ہی میں روز بروز اضافہ نہیں ہو رہا بلکہ ان سے جبری مشقت لے کر ان کا استحصال بھی کیا جارہا ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ پاکستان میں ان صورت حال پہلے سے کہیں زیادہ ابتر اور تشویش ناک ہے۔
اگر ہم ملکی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو تمام اہم اور قابلِ ذکر ادارے اور شعبے بحران کا شکار نظر آئیں گے۔ بالخصوص معاشی بحران نے ہر سمت تباہی مچا دی ہے جس کی وجہ سے غربت اور بے روز گاری میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس کے نتیجے میں محنت کش بچّوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور ان سے جبری مشقت لی جارہی ہے۔
محنت کش بچّے ہمارے معاشرے کے وہ قابلِ رحم پھول ہیں جو گلچیں کے ہاتھوں بعد میں اور باغبان کے ہاتھوں پہلے نقصان اٹھاتے ہیں۔ اپنوں کی مہربانیاں اُن کے علم کے شوق میں روڑے اٹکاتی ہیں، غربت ہی سے مجبور نہیں بلکہ ‘نشے میں چُور’ والدین اپنے پیٹ اور نشّے کی آگ بجھانے کے لیے کم عمری میں بچّوں سے جبری مشقت کرواتے ہیں لیکن خاص طور پر نشّے کا عادی باپ خود محنت کر کے ضروریاتِ زندگی فراہم نہیں کرتا۔ یہ معصوم بچّے والدین اور اپنے کارخانے، دکان، بھٹی کے مالک کے جبر اور تشدد کا نشانہ بن کر سماج کے لیے سوال بن جاتے ہیں۔ ان کے چہرے کی بے بسی، مفلسی، ان کی سوچ کی الجھن، اندر کی گھٹن، تشنہ آرزؤں کی تھکن معاشرے سے سوال کرتی ہے کہ کیا زندگی کی خوشیوں پر ہمارا کوئی حق نہیں؟ کم عمری میں ذمہ داریوں کا بھاری طوق ان کی گرن کو بوجھل کردیتا ہے اور ان کی وحشت زدہ نگاہیں یہ پیغام دیتی نظر آتیں ہیں،
جو دن
میرے کھیلنے کے تھے وہ
مشقتوں میں گزر رہے ہیں
یہ کیسی بے بسی ہے دیکھو
نہ جی رہے ہیں نہ مر رہے ہیں
(اداس بچّی، سلیم مغل)
بچّوں سے جبری مشقت لے کر نہ صرف اُن کی شخصیت مسخ کی جاتی ہے بلکہ ان کے حقوق بھی پائمال کیے جاتے ہیں۔ قانون برائے اطفال اور بچّوں سے جبری مشقت کے قانون پر ملک میں عمل نہیں کیا جاتا۔ 75 سال بیت گئے اور اس عرصہ میں کئی قوانین بنے جنھیں فکر کی جسارت تو ملی لیکن عمل کی حرارت نصیب نہ ہوئی۔ 12 سال سے کم عمر بچّوں سے جسمانی مشقت لینے پر پابندی ہے، لیکن یہاں ان سے نصف عمر کے بچّے بھی محنت مشقت کر کے اپنے گھر والوں کی مالی مدد کرنے پر مجبور ہیں اور ان کا بچپن زندگی کی حقیقی خوشیوں سے محروم رہتا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پانچ سے چودہ برس کے بچّے کم از کم بارہ سے سولہ گھنٹے لگاتار شدید مشقت کرتے ہیں۔ ان میں چھوٹے بچّے عموماً چائے کے کھوکوں، گلی محلّے کے نکڑ پر ہوٹلوں، ورکشاپوں، سائیکل کی دکانوں پر، گاڑیاں صاف کرتے، قالین بنانے یا کپڑا رنگنے والے کے پاس، بھٹیوں، اور مختلف کارخانوں میں یومیہ اجرت پر کام کرتے نظر آتے ہیں اور ہم انھیں گاڑیوں کے شیشے صاف کرتے، کچرے سے کاغذ اور پلاسٹک کی تھیلیاں وغیرہ چنتے، جوتے پالش کرتے، یا شاہراہوں پر پھول بیچتے ہوئے بھی دیکھتے ہیں۔
پاکستان کے آئین میں آرٹیکل 13 کے تحت 14 سال سے کم عُمر بچوں سے کسی فیکٹری، معدنی کان اور اس جیسے شعبوں میں کام لینے کی اجازت نہیں ہے، اس کے باوجود یہ سلسلہ جاری ہے جس سے بچّوں کی صحت اور نشوونما کے مسائل جنم لیتے ہیں۔ جبری مشقت کرنے والے اور سڑکوں پر رہنے والے بچّے مختلف امراض بالخصوص پیٹ، پھیپھڑوں اور سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے عالمی اداروں اور مقامی سطح پر جبری مشقت کی روک تھام کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق ایسے بچّوں میں تپ دق، ہیپا ٹائیٹس، سوزش اور ایڈز جیسے امراض بھی سامنے آئے ہیں۔
دوسری طرف گھروں میں کام کاج نمٹانے کی غرض سے رکھے جانے والے بچّوں کی صورت حال بھی غیر تسلی بخش ہے۔ ان میں خاص طور پر بچّیاں شامل ہیں جن کی ملازمت کا دورانیہ صبح 8 سے شام 5 بجے تک ہوتا ہے۔ اگر یہ بچّے کل وقتی گھریلو ملازم ہوں تو چوبیس گھنٹے مالکان اور اُن کے اہلِ خانہ کی خدمت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ گھر کے کاموں میں ان کی معمولی سی بھی غفلت یا کوتاہی مالکان کے لیے ناقابلِ برداشت ہوتی ہے اور معمولی باتوں پر وہ ان معصوموں کو روئی کی طرح دھنک کر رکھ دیتے ہیں۔ ان کی تنخواہ میں سے کٹوتی کرلی جاتی ہے۔ چوں کہ اس تنخواہ پر بچّوں کے والدین کا حق ہوتا ہے، اس لیے ایسی صورت میں یہ بچّے اپنے والدین کے عتاب کا نشانہ بنتے بھی ہیں۔ کیوں کہ اس طرح اُن کی لگی بندھی آمدنی میں کمی ہو جاتی ہے۔ یہ گھریلو ملازم اپنے ہی ہم عمر بچّوں کی خدمت کرتے ہوئے طبقاتی کشمکش کا شکار اور نفسیاتی الجھنوں میں مبتلا ہو کر باغی ہو جاتے ہیں۔ باہر کام کرنے والے کمسن بچّے ہوں یا گھروں میں کام کرنے والی بچّیاں انھیں جسمانی اور ذہنی ہی نہیں جنسی تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ ان عوامل کے تحت یہ بچّے جسمانی ہی نہیں اخلاقی اور نفسیاتی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں۔
یونیسیف کی گلوبل موومنٹ فار چلڈرن اور انٹرنیٹ کی جدید دنیا سے منسلک تنظیم ”نیٹ ایڈ آرگنائزیشن“ کے تحت مہم ”بچّوں کے لیے صرف ایک ہاں“ کے دس اہداف میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ”بچوں کو خوف زدہ کرنے سے گریز کریں، کیوں کہ یہ معصوم پھول خوف سے کمہلا سکتے ہیں، ان سے محنت و مشقت کروانے کے بجائے ان کے لیے خود محنت و مشقت کریں، انھیں کسی بھی قسم کے جنسی و نفسیاتی خوف میں ہرگز مُبتلا نہ کریں۔“
”چھوٹے“ کہلانے والے محنت کش بچّوں کی زندگی بدترین اور مشکل ہوتی ہے۔ عمر میں اضافے کے باوجود یہ چھوٹے ہی کہلاتے ہیں۔ 1992ء میں جبری مشقت کی روک تھام کے لیے ایک ایکٹ نافذ کیا گیا تھا جس کی خلاف ورزی کی صورت میں جرمانہ اور قید کی سزا بھی ہوسکتی ہے، مگر اس پر بھی عمل نہیں کیا جاتا۔ حکومت اور این جی اوز کی جانب سے بڑے بڑے دعوے کیے جاتے ہیں، مگر آج بھی جبری مشقت اور اس کا خاتمہ پاکستان جیسے ممالک کا سب سے بڑا اور سنگین مسئلہ ہے۔
اقوامِ متحدہ کے کنونشن آرٹیکل 32 کے مطابق ” ہر بچّے کو معاشی استحصال سے بچانا حکومت کے اوّلین فرائض میں شامل ہے، حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ کوئی بچّہ کسی ایسے کام میں ملوث نہ ہو جو اس کی جسمانی اور ذہنی صحت کو نقصان ہو اور جس سے اس کی سماجی و اخلاقی ترقی کو نقصان پہنچے۔ اسی طرح مزدوری کرنے والے بچّوں کی کم سے کم عمر اور کام کے اوقات کا تعین حکومت کرے اور قانون شکنی کرنے والوں کو حکومت سزائیں دے۔“
کانفرنس، ورکشاپ اور اجلاس جبری مشقت کا شکار بچّوں کے دکھ کا مداوا نہیں کرسکتے، اس کے لیے خلوص نیّت کے ساتھ کوششیں کرنے اور حکومتی سطح پر اقدامات کرنا ہوں گے۔