The news is by your side.

منہگائی کے اس دور میں بچت کیوں اور کیسے؟

بیگم حمیدہ اختر حسین اپنی خود نوشت ”ہمسفر“ میں ایک جگہ لکھتی ہیں ”اماں نے شادی سے پہلے ایک بات کہی تھی کہ دو لفافے سادے لے کر ایک پر لکھنا ”برائے قرض“ دوسرے پر ”برائے اشد ضروری“ اور جو روپے تم کو گھر چلانے کے لیے دیے جائیں تو کچھ ایک میں اور کچھ دوسرے میں رکھ دینا اور جو بھی روپے آخر ماہ پر بچ جائیں ان کو بھی آدھا آدھا کر کے لفافوں میں رکھ دیا کرنا۔ اگر کبھی گھر کا خرچ کم پڑ جائے تو قرض لفافے سے قرض لے لیا کرنا، مگر پہلی کے بعد پہلے لفافے کا قرض چکا دیا کرنا۔ اشد ضرورت والے کو جب ہی ہاتھ لگانا جب درحقیقت کچھ وقت بے وقت برات رات کوئی خدا نہ کرے ڈاکٹر، دوا یا اسپتال جانے کی ضرورت پڑ جائے۔ ایسا کرتی رہو گی تو کبھی کسی کے سامنے شرمساری اُٹھانا نہ پڑے گی۔ میں نے خود ساری زندگی ایسا کیا۔“

کسی بھی خاتونِ خانہ کے سلیقے کا اندازہ گھریلو اخراجات کی مد میں اس کی کفایت شعاری اور بچت کی عادت سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ فضول خرچ خواتین کے لیے بچت ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتی ہے۔ ایک قول ہے کہ ”اپنی آمدنی سے زیادہ خرچ کرنا اور کسی خدائی عطیہ کا امیدوار رہنا خطرناک غلطی ہے۔“ خواتین کی ایک قسم ایسی بھی ہے جو نہ صرف یہ کہ اس خطرناک غلطی کی مرتکب ہوتی ہے بلکہ فخریہ اس کا اظہار کرتی ہے اور ترغیب بھی دیتی ہے۔ اللہ پر توکل نعمتِ الٰہی ہے، لیکن اصرافِ بے جا لعنت ہے۔ بچت ایک اچھی عادت ہے کہ پس انداز کی گئی رقم کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ کبھی کبھی تو مایوسی کے اندھیرے میں امید کی کرن بن کر اپنا آپ منوا لیتی ہے۔ ہر خاتونِ خانہ اپنے طریقے سے اپنا گھر چلاتی ہے۔ خواہ خوش اسلوبی سے چلائے یا بدامنی و بے اطمینانی کی فضا میں سانس لیتے ہوئے۔ یہ اس کی اپنی سوچ ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے گھریلو اخراجات میں توازن محال کر دیا۔ ایسے میں رقم پس انداز کرنا بڑے کمال کی بات ہے اور اس سے بھی بڑا ہنر یہ ہے کہ بچت کے معاملات کو اکثر خواتین صیغۂ راز میں رکھ لیتی ہیں۔ جس طرح بچت کا طریقہ ہر ایک کا الگ الگ ہوتا ہے اس طرح ہر خاتون کی بچت کے مقاصد بھی الگ ہوتے ہیں۔ اوروں کے تجربات سے بھی ہم بہت کچھ سیکھ لیتے ہیں۔ اسی خیال کے تحت ہم نے چند خواتین سے معلوم کیا کہ وہ بچت کیوں اور کیسے کرتی ہیں؟

ہمیں خوشی ہے کہ خواتین نے جی داری سے سربستہ راز فاش کیے ہیں، آپ بھی پڑھیے۔

نسیم نازش ( شاعرہ )
کچھ رقم بینک میں چھوڑ دیتی ہوں اور کچھ گھر کے خفیہ خانوں میں رکھ کر بھول جاتی ہوں، ہاں پیسے کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دیتی اور سوچتی ہوں اگر بارٹر نظام یعنی اشیاء سے اشیاء بدل کر احتیاج پوری کرنے کا زمانہ پھر آجائے تو اس پیسے کی دوڑ سے لوگوں کا سانس پھولنا، بلڈ پریشر بڑھنا کچھ کم ہو جائے۔ میں اپنی مدد آپ کی پاس داری کا بھرم رکھنا جانتی ہوں، کسی کے سامنے سوال کرنا میرے لیے سب سے مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ اس صورت حال سے بچنے اور انا کے ہرٹ ہونے کی بری پوزیشن سے گریز تب ہی ممکن ہے جب آپ زندگی میں میانہ روی اختیار کریں، خواہشیں اور ضرورتیں آپ کی محتاج ہوں نہ کہ آپ اُن کے آگے ہتھیار ڈال دیں۔ میری عادت بچپن سے ہے کہ میں کچھ پس انداز ضرور کرتی ہوں۔میں نے میٹرک تک اسکالر شپ حاصل کیا مگر پیسوں کو صرف انتہائی ضرورت کے وقت پر ہی خرچ کیا۔ والدین کو یہ تربیت بچوں کو ابتدا ہی سے دینی چاہیے کیونکہ آپ کے گرد جو انا کا شیشے سے بھی زیادہ نازک حصار ہے بچت کی عادت اسے ٹوٹنے سے بچا لیتی ہے اور کسی کے آگے آپ ہاتھ پھیلانے کے عذاب سے بچ جاتے ہیں۔

ہاں یہ بچت صرف آپ کی ذات کے لیے نہیں ہونا چاہیے بلکہ آپ کے اردگرد موجود آپ کے دوست احباب اور آپ کے پیاروں کا بھی آپ اور آپ کے وسائل پر پورا حق ہے۔ میں اس لیے بھی بچت کرتی ہوں کہ مجھ سے کبھی کوئی طلب کرے تو میں سوالیہ نشان نہ بن جاؤں چونکہ کسی کے کام آکر جو مسرت حاصل ہوتی ہے اس کا اندازہ تو یہ عمل کیے بغیر آپ کو پتہ ہی نہیں چل سکتا۔

افشاں احمد ( معلمہ۔ مغنیہ)
اگر میری آمدنی سو روپے ہے تو میری کوشش یہی ہوتی ہے کہ اس میں سے چالیس روپے ایسے چھپا کر رکھوں گویا وہ میرے پاس ہیں ہی نہیں اور میں ایسا کرتی بھی ہوں۔ بقیہ ساٹھ روپے میں کام چلاتی ہوں۔ اس طرح خود ہی سیونگ ہوتی رہتی ہے ورنہ تو اخراجات بے شمار ہوتے ہیں، وہ کہاں رکنے والے ہیں۔ بچت اس لیے کرتی ہوں کہ ضروت کے وقت وہ پیسہ کام آئے، محض ہماری ضرورت کے لیے ہی نہیں بلکہ کسی اور کو ضرورت پڑنے پر بھی وہ رقم کام آسکتی ہے۔

ثمینہ قاسم (معلمہ)
میں ماہانہ گھریلو بجٹ بنا لیتی ہوں، ضروری اخراجات کا تخمینہ لگاتی ہوں اور اس خرچ کا بھی جو غیر ضروری مگر میری طلب اور خواہش میں شامل ہے کہ خریدنی ہے، اگر وہ مہنگی ہوتی ہے تو میں اُسے اپنی فہرست سے خارج کر دیتی ہوں، اس طرح تھوڑی بہت بچت ہو سکتی ہے۔ کسی ماہ کسی سبب سے بجٹ متاثر ہو رہا ہو تو آؤٹنگ کم کر دیتی ہوں، اس سے پٹرول کی بچت ہو جاتی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ مہینے کے آخر میں پیسوں کی بچت کر ہی لیتی ہوں، جو بچت ہوتی ہے میں اس رقم کو ڈپازٹ کر دیتی ہوں جو برے بھلے وقت میں کام آجاتی ہے۔ دوا دارو کے معاملے میں بچت نہیں ہو سکتی کہ لازمی ضرورت ہے لیکن جو آئٹم ہمارے اختیار میں ہوں اسے میں نہیں خریدتی کیونکہ اس سے بجٹ متاثر ہوتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ بچت کر کے اس رقم کو کسی ایسی مد میں جہاں آپ خرچ کرنا چاہتی ہیں کر لیں۔

بینا خان ( آر جے)
مہنگائی کے اس طوفان سے عزت کے ساتھ بچ نکلنا ایک بڑا امتحان ہے۔بچت ایک بہت ضروری امر ہے۔ روزمرہ کے اخراجات سے نبٹتے ہوئے کچھ پیسے بچا لینے کو بچت کہتے ہیں ۔ بچت کی رقم سے ہم مستقبل میں آنے والی اچانک ضرورتوں کو پورا کر لیتے ہیں جیسے کہ بچوں کا یونیفارم یا ڈاکٹر کی فیس وغیرہ. آج کل جس ہوشربا مہنگائی کا ہمیں سامنا ہے اس سے نمٹتے ہوئے بچت کے نام پر کچھ پیسے بچا لینا دیوانے کا خواب معلوم ہوتا ہے۔اب تو گھر میں دو سے تین لوگ کمانے والے ہوں تو عزت سے گزارہ ہوتا ہے۔ نہیں ہے ہاتھ میں کشکول،یہی بس کسرباقی ہے
کرتے ہو مذاق ہم سےبچت کی بات کرکے تم

ان حالات میں ہم کسی بھی طرح اضافی اخراجات کے متحمل نہیں ہوسکتے ۔ ہم اضافی کپڑوں کی خریداری ، کچن کے اضافی سامان کی خریداری کو کم کرکے کچھ بچت کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ بجلی کا استعمال بھی پہلے سے کم کردیا ہے تاکہ کچھ بچت ہو سکے۔

مہ جبیں آصف (کالم نگار)
بچت اس لیے کرتی ہوں کہ بوقتِ ضرورت کسی کے آگے دستِ سوال دراز نہ کرنا پڑے۔ کیسے؟ اپنی آمدنی میں سے صرف ضرورت کی رقم نکال کر باقی محفوظ رہتی ہے۔ اس طرح عمدگی سے بچت ہو جاتی ہے۔

سیما عامر خان (ماہرِ زیبائشِ حسن)
ایک عمر تک ہی انسان کما سکتا ہے جب تک آپ میں ہمت ہے محنت کر کے کما لیں اور جو بچت اس وقت کریں وہ آرام کے دنوں میں کام آئے گی۔ عمر کے ساتھ ساتھ بیماریاں بھی حملہ آور ہوجاتی ہیں اُن پر قابو پانے کے لیے وہی رقم کام آئے گی جو آج ہم بچا کر رکھیں گے۔ ابا نے شروع سے یہی سمجھایا کہ اس وقت پانچ خرچ کرو جب پیچھے پچاس رکھے ہوں۔ اب تو اللہ کا بڑا کرم ہے میرا اماؤنٹ زیادہ ہے لیکن آج بھی میں ابا کی ہدایت کے مطابق ہی خرچ کرتی ہوں۔ میرے شوہر کی آمدنی سے گھریلو اخراجا ت پورے ہوتے ہیں اور میری آمدنی کی بچت ہو جاتی ہے۔ عامر کو جو بونس ملتے ہیں انھیں اضافی اخراجات میں بیلنس کرتے ہیں اس طرح بچت کر کے ہم نے عمرہ بھی کیا، سالانہ تفریح بھی کی۔ میں اپنے ابا سے بہت متاثرہُوں وہ ملازم پیشہ آدمی تھے، ہم تینوں بہنوں اور بھائی کی شادی پر انھوں نے کسی سے قرض نہیں لیا اور شادیاں بھی بہت اچھی طرح کیں، ابا نے ہمارے بچپن ہی سے یہ اصول وضع کر لیا تھا کہ ہر بچّے کے نام پر ایک مخصوص رقم ہر ماہ الگ کر دی جاتی اور شادی کے وقت ہم سے پوچھ لیا کہ جہیز اچھا چاہیے؟ کیش چاہیے یا سارا کچھ ظاہری شو شا پر خرچ کرنا ہے، ہم نے اپنا کیش اکاؤنٹ ابا سے لے کرضروری اشیاء خرید کر باقی رقم محفوظ کر دی جو ہمارے بہت کام آئی۔

ناہید اقبال (گھریلو خاتون)
بچت کرنا اس دور کی اشد ضرورت ہے جس کے بغیر آگے گزارا ممکن نہیں۔ آنے والے وقت کے مشکل حالات سے نمٹنے کے لیے آج بچت کرنا ضروری ہے۔ ہر چیز کی قیمت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے، میں ہر ماہ گھریلو بجٹ تیار کرتی ہوں اس میں تمام اخراجات کا حصہ ہوتا ہے اور پوری کوشش رہتی ہے اس بجٹ میں رہ کر گزارا کیا جائے۔ فضول اخراجات سے گریز کرتی ہوں اور بجٹ میں سے بھی کچھ بچانے کی خواہش رکھتی ہوں مگر ایسا ممکن کہاں ہے؟ آنے والے بڑے اخراجات کے لیے بھی آج ہی سے جوڑنا ضروری ہے۔ مثلاً کسی کی شادی، گھر کی مرمت، پڑھائی کا خرچہ، بچت کے لیے نظم و ضبط کا ہونا بہت ضروری ہے آج کی تھوڑی تنگی کل کی خوشحالی کا باعث بن سکتی ہے۔

شمائلہ سہیل جاوید (معلمہ)
آج کے دور میں بچت کرنا ایسے ہی ہے جیسے بھوسے میں سوئی ڈھونڈنا۔ مہنگائی کا پارہ جیسے روز بروز چڑھ رہا ہے۔ اس میں بچت کرنا ایک جہاد سے کم نہیں۔اور خواتین سب سے زیادہ اسی محاذ پر برسرِ پیکار ہیں۔ میں خاتونِ خانہ اور ورکنگ وومن ہوں مگر بچت کے محاذ پر اپنی تمام توانائیوں کے باوجود آخر میں آکر بالکل بے بس اور مجبور ہو جاتی ہوں۔ لیکن پھر بھی یہ دلِ ناتواں ہر وقت ایک نئی منصوبہ بندی کے ساتھ دوبارہ مقابلے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ چنانچہ سب سے پہلے میں کمیٹی جیسے ہتھیار کو کام میں لاتی ہوں۔ چھوٹی کمیٹی الگ اور ایک تھوڑی اس سے بڑی کمیٹی ڈال کر کچھ نہ کچھ نیا پار کنارے لگ ہی جاتی ہے۔ لیکن اس کے لیے جس طرح ہمیں اپنے نفس، خواہشات اور آرزوؤں کو مارنا پڑتا ہے۔ ایک خاتونِ خانہ ہی اس دکھ کو سمجھ سکتی ہے۔ لیکن اس کے علاوہ چھوٹی چھوٹی اور بچت کی اسکیمیں ہیں۔ کھانا ضائع نہیں کرتے، بجلی جہاں ضرورت ہو وہاں استعمال کرتے ہیں۔ ایک شلوار دوپٹے کے ساتھ چار قمیصوں کی میچنگ کر لیتے ہیں۔ جہاں جانا ضروری ہو وہیں جاتے ہیں۔

سحر خرم (معلمہ)
آج کے دور میں جب مہنگائی اپنے عروج پر ہے تو بچت ایک مشکل ٹاسک بن جاتی ہے لیکن اپنے بڑوں کے سکھائے ہوئے طریقوں پر عمل کر کے کچھ نہ کچھ بچت ہو ہی جاتی ہے۔ ایک تو کمیٹی ڈالنے سے وقت پڑنے پر کچھ نہ کچھ رقم ہاتھ میں ہوتی ہے۔ اپنے بچپن ہی سے گلک کا شوق رہا ہے کہ کچھ پیسے اس میں
ڈالتے رہو تو ضرورت کے وقت رقم ہاتھ آ ہی جاتی ہے۔

عروج فاطمہ زہرا (لیکچرار)
بچت اس لیے ضروری ہے کہ مہنگائی میں گزارا کرنا ہے ، رہی بات کیسے؟ تو بچت کرنا بہت مشکل کام ہے۔ مگر کہیں نہ کہیں بچت ہو جاتی ہے، کبھی کوئی چیز دکان دار سے جھگڑ کر کم کرواتے ہیں۔ کبھی بنے ہوئے کھانوں کو دوبارہ نئے سرے سے بنا لیتے ہیں۔ سیل لگنے کا انتظار کرتے ہیں۔ اس طرح ہو جاتی ہے بچت۔

سارہ جاوید (گرافک ڈیزائنر)
زیادہ تر بچت کسی بڑے کام کے لیے کی جاتی ہے کہ اگر کوئی چیز لینا ہے یا کچھ کرنا ہے تو اس کے لیے ایک ساتھ پیسے جمع کر کے اس کے لیے بچت کی جاتی ہے۔ اس کے لیے کبھی کمیٹی ڈالتی ہوں کبھی گلک میں پیسے جمع کر لیتی ہوں۔ اس سے پیسے جمع ہو جاتے ہیں، کسی بھی چیز کو خریدنے، کوئی بھی کام کرنے کے لیے۔

قارئین! کسی کا قول ہے ”دولت محنت سے حاصل ہوتی ہے، کفایت شعاری سے قائم رہتی ہے اور کوشش و استقلال سے بڑھتی ہے“

ہماری بیشتر خواتین محنت سے حاصل کی جانے والی دولت کو کفایت شعاری سے پس انداز کر ہی لیتی ہیں، اُن کا یہ جذبہ صاحب جی کو استقلال کے ساتھ محنت کی جانب مائل کرتا ہے، گھر کے پرسکون ماحول اور بقا کے لیے یہ باہمی کاوش بہت خوش آئند ہے۔ بچت کیوں اور کیسے محض ایک سوال ہی نہیں بلکہ خاتونِ خانہ کی آزمائش اور کامیابی کی نوید بھی ہے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں