The news is by your side.

شادی شدہ بیٹی کی زندگی میں ماں کی مداخلت دانش مندی یا غلطی؟

ماں بیٹی کا بندھن بھی عجیب ہے کہ جو اکثر کہے بغیر ہی ایک دوسرے کی بات سن بھی لیتی ہیں اور سمجھ بھی لیتی ہیں۔ اکثر بیٹیاں اپنی ماؤں سے اس درجہ قریب اور متاثر ہوتی ہیں کہ لاشعوری طور پر ماں کے نقش قدم پر چلتی ہیں۔ گویا بیٹیوں کی زندگی کے بگاڑ اور سدھار میں جہاں ان کی فطرت، مزاج، اخلاق اور عادات کا دخل ہوتا ہے وہاں ماں کی تربیت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا جو اس ضمن میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں شادی سے پہلے بیٹی سے متعلق چھوٹے بڑے فیصلے کا اختیار اور ان کی زندگی میں عمل دخل کا حق رکھنے کے ساتھ مائیں ان کی تربیت کرنے کا فریضہ بھی انجام دیتی ہیں۔ جب کوئی بیٹی نئی زندگی کا آغاز کرتی ہے تو ماں کی تربیت تو اس کے ساتھ ہوتی ہے، لیکن اس کی ذمہ داری کم ہو جاتی ہے۔ دوسری طرف وہ مائیں بھی ہیں جن کی ذمہ داری کئی گنا بڑھ جاتی ہے کیونکہ وہ بیٹیوں کی اندھی محبت میں گرفتار ہوتی ہیں اور رخصتی کے بعد بھی ان پر اپنا اثر برقرار رکھنا چاہتی ہیں‌ اور ان پر مسلط رہتی ہیں۔ کئی ایسی مثالیں موجود ہیں جب شادی شدہ بیٹی کی زندگی میں ماں کے غیر ضروری عمل دخل اور ماں کی ”دانش مندی“ سے گھر ٹوٹنے کے واقعات پیش آئے ہیں۔ مضحکہ خیز المیہ یہ ہے کہ بیٹی کو اس کے سسرال میں تحفظ دینے کی خواہش میں ایک ماں ہی اس کے آشیانے کو کم زوربنا دیتی ہے۔ اس اہم اور حساس موضوع پر ہم نے چند ماؤں اور بیٹیوں سے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ شادی شدہ بیٹیوں کی زندگی میں ماؤں کا عمل دخل کس حد تک ہونا چاہیے؟

ممتاز قریشی (سیاستداں، سماجی رہنما )
شادی شدہ بیٹیوں کی زندگی میں ماؤں کا عمل دخل آج کل بہت بڑھ گیا ہے۔ ہر چھوٹی چھوٹی بات پر ماں اپنے گھریلو حالات اور طور طریقوں کے مطابق بیٹیوں کو مشورے دیتی ہے اور بتاتی ہے ہمارے گھر کا یہ رواج ہے، تم بھی ایسا ہی کرو۔ ایسی مائیں یہ نہیں سوچتیں ان کی بیٹی جس گھر میں بیاہ کر گئی ہے وہاں کا کیا طور طریقہ ہے، کیوں کہ بیٹی کو تو اب اُسی گھر میں رہنا ہے۔ ماں اگر سمجھدار ہے تو وہ بیٹی کو اچھے مشورے دے گی۔ میکے کے رسم و رواج اور اطوار چھوڑ کر سسرال کے طریقے اپنانے کی تلقین کرے گی۔ لیکن کیا کیا جائے ان ماؤں کا جو خود اپنے گھر میں بھی حکومت کر رہی ہیں، بہوؤں اور بیٹوں پر بھی اُن کی حکمرانی ہے اور پھر وہ بیٹی داماد پر بھی حکومت کرنا چاہتی ہیں۔ اس کشمکش میں بعض اوقات نوبت طلاق تک آجاتی ہے۔ میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کا ذمہ دار ایسی ہی ماؤں کو سمجھتی ہوں۔ میں ان لڑکیوں کی ماؤں سے جو لڑکوں کی مائیں بھی ہیں، کہتی ہوں کہ جو غلط مشورے آپ اپنی بیٹی کو دے رہی ہیں اور اس کے گھر میں‌ بے جا مداخلت کررہی ہیں، اگر ایسا آپ کی بہو کی ماں بھی کرے تو گھر کا ماحول کیا ہوگا؟

غزالہ یاسمین (سابق اناؤنسر، پی آر او پی ٹی وی، کراچی مرکز)
جب بیٹی بیاہ کر دوسرے گھر جاتی ہے تو ماحول اور لوگ مختلف ہوتے ہیں۔ میکے میں اگر پندرہ لوگ ہیں تو وہ ان کے مزاج اور عادات سے بچپن ہی سے واقف ہوتی ہے جب کہ سسرال میں موجود صرف پانچ لوگوں کو بھی سمجھنے میں وقت لیتی ہے۔ ایسے میں ماں کو چاہیے کہ بے جا مداخلت کے بجائے بیٹی کو سمجھائے کہ وہ اپنے شعور سے گھر کو بنائے اور معاملات کو سدھارے مگر خرابی نہ لائے۔ بعض مائیں یہ ناسمجھی بھی کر جاتی ہیں کہ ادھر بیٹی نے سسرال کی کوئی بات ماں سے کہی اُدھر ماں نے ایک اجلاس بلا لیا۔ اس سے معمولی بات بھی گمبھیر ہو جاتی ہے۔ ماں سمجھداری سے مداخلت کر کے بات ختم بھی تو کر سکتی ہے۔

عمرانہ مقصود (مصنفہ)
جس دن بیٹی کی شادی کر دی اُس دن ماں باپ کو دستبردار ہوجا نا چاہیے اور صرف اس وقت اس کے معاملات میں بولنا چاہیے جب وہ یا اس کا شوہر خود کہے۔ ورنہ بیٹی ایک اور یونٹ سے وابستہ ہو چکی ہوتی ہے اور وہ یونٹ اپنے فیصلوں میں آزاد ہے۔ ماں کو بھی سوچنا چاہیے کہ بیٹی کتنی ہی لاڈلی ہو اس کے یونٹ کی عزّت ہم سے ہوتی ہے تاکہ وہ آئندہ زندگی میں بھی یہی سیکھے۔ اور جہاں ماں باپ شادی کے بعد بچّیوں کے معاملات میں بولتے ہیں وہاں لامحالہ مسائل پیدا ہوتے ہیں اور بہت سی طلاقوں کی وجہ وہ ماں باپ ہوتے ہیں جو اس طریقے کو روا رکھتے ہیں۔ بیٹی کے دل میں ہمیشہ یہی ڈالنا چاہیے کہ ”یہ آپ کا گھر تھا اور اب سسرال آپ کا گھر ہے۔“

جہاں آراء حئی (ٹی وی آرٹسٹ، سماجی کارکن)
شادی شدہ بیٹی کی زندگی میں ماں کو زیادہ دخل اندازی کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر بیٹی رائے مانگے تو ماں اسے رائے ضرور دے کہ جو بھی صورت حال ہے اپنے گھر کے ماحول کے مطابق اس کا سامنا کر کے اس پر قابو پاؤ۔ اور شوہر کو اعتماد میں لے کر اس کے مشورے کے مطابق کام کرو۔ میں سمجھتی ہوں کہ شادی شدہ بیٹی کی زندگی میں ماں کا عمل دخل براہِ راست نہیں ہوتا لیکن ماں جو تربیت بچّیوں کی کرتی ہے، وہی سسرال میں ان کے کام آتی ہے۔ یوں تربیت کی صورت میں ماں کا عمل دخل بہت پہلے ہو چکا ہوتا ہے۔

مہناز حسن زیدی (ڈائریکٹر اطلاعات، پریس حکومتِ سندھ)
جب بیٹی رخصت ہو کر دوسرے گھر جاتی ہے تو ماں کو یہ سوچنا چاہیے کہ اب اس کی پرورش اور تربیت کا وقت گزر گیا۔ ماں کو اپنے آپ سے سوال کرنا چاہیے کہ کیا میں نے اسے دوسرے گھر کے لیے تیار کر دیا؟ اور پھر جہاں کسی بھی معاملے میں میکے اور سسرال والوں کی سوچ مختلف ہو وہاں میکے والوں خاص طور پر بیٹی کی ماں کو اپنے مشورے اپنے تک محدود رکھنے چاہئیں۔ اگر شادی کے بعد بیٹی مشکل میں ہو یا اسے کوئی مسئلہ ہو، سسرال والوں کی کوئی بات ناگوار گزرتی ہو یا شوہر اور سسرال والوں سے کسی بات میں اختلاف یا رنجش ہو تواس وقت ماں کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن اگر ایسے وقت میں ماں اپنی رائے بیٹی پر مسلط کرتی ہے بیٹی ماں کے دکھائے منفی راستے پر چلنے کی کوشش کرتی ہے یا ماں کی غلط باتوں کا اثر قبول کرتی ہے تو مسائل بڑھتے چلے جاتے ہیں۔

ماں کو چاہیے کہ اس صورت حال میں بیٹی کو خود سوچنے غور کرنے اور فیصلے کرنے کا موقع دے اور اگر ماں کا مشورہ اتنا ہی ضروری ہے تو وہ بیٹی کو ایسا مشورے دے کہ وہ سسرال میں مثبت رد عمل کا اظہار کرے کہ گھر بنتا بھی عورت سے ہے اور بگڑتا بھی عورت سے ہے۔ یہ بہت بڑی سچائی ہے کہ قربانیوں اور ایثار کا مثبت نتیجہ ایک نہ ایک دن ضرور سامنے آتا ہے۔ اس لیے کٹھن مراحل کو صبر اور تحمل سے طے کریں۔ ماؤں کے غلط اور یک طرفہ فیصلوں سے بھی بیٹی کا گھر خراب ہوتا ہے۔

ڈاکٹر نجمہ فرمان (سابق پروفیسر شعبۂ سماجی بہبود، جامعہ کراچی)
تعلیم ختم ہوتے ہی مجھے یونیورسٹی میں ملازمت مل گئی۔ یوں گھر داری کا زیادہ موقع نہ مل سکا۔ میرا تجربہ اور خیال تو یہی ہے کہ شادی شدہ بیٹیوں کی زندگی میں ماں کا بہت عمل دخل ہوتا ہے، جیسے میری شادی کے ابتدائی دنوں میں میری اماں نے مجھے تلقین کی کہ ہمیشہ اچھے اور ریشمی کپڑے پہنا کرو جب کہ مجھے کاٹن کے کپڑے پہننے کی عادت تھی۔ اماں نے یہ بھی سمجھایا کہ بہت زیادہ کپڑے لتے پر پیسے خرچ نہ کرو، وقتاً فوقتاً کھانا پکانے کی ترکیبیں مجھے فون پر بتاتیں اور ساتھ ہی سمجھاتی بھی جاتیں کہ اگر پہلے سے چیزیں تیار کر لو تو وقت پر پریشانی نہ ہو۔ آج تک میں نے وہی طریقے اپنائے ہوئے ہیں۔ اماں نے مجھے ہمیشہ تلقین کی اپنی ساس کا بہت زیادہ خیال رکھو۔ میری ساس بہت سخت مزاج خاتون تھیں۔ میں نے جب اماں سے اس کا تذکرہ کیا توان کے الفاظ مجھے آج تک یاد ہیں، انہوں نے کہا ”انہوں نے جو کچھ کہا وہ تمہیں اتنا زیادہ برا لگا مگر ان کی یہ بات دوسروں کو اتنی بری نہیں لگے گی۔ ساس کبھی بری نہیں ہوتی ہاں اس کا انداز ضرور برا ہو سکتا ہے۔“

اماں نے میری شادی شدہ زندگی میں مداخلت ضرور کی لیکن میری راہ نمائی کی نیّت سے۔ آج جب کہ میری بیٹی یونیورسٹی کی طالبہ ہے تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ اماں کی مداخلت نے میری زندگی میں خوشی کے کتنے رنگ بکھیر دیے۔ یہ رنگ اپنے مثبت طرزِ عمل سے میں بھی تو اپنی بیٹی کی زندگی میں بھر سکتی ہوں۔ موجودہ عام مسائل، خاندانی مسائل، رنجشیں اور زمانے کے نئے رنگ ڈھنگ اور فیشن کے سبب ہر لڑکی اور ہر لڑکے کو شادی کے بعد ایڈجسٹمنٹ میں بہت دشواری محسوس ہوتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ لڑکی کی ماں اس ایڈجسٹمنٹ کے لیے مثبت کردار ادا کرے۔

تابندہ لاری ( نعت خواں، صحافی)
عموماً مائیں شادی شدہ بیٹیوں سے کرید کرید کر اُن کے گھر کے حا لات معلوم کرنا چاہتی ہیں۔ شاید وہ ایسا اپنی بیٹی کی محبت میں کرتی ہوں لیکن اس کا فائدہ تو کچھ نہیں ہوتا۔ ہاں نقصان ضرور ہو سکتا ہے۔ میں مشترکہ خاندانی نظام کا حصہ ہوں۔ لیکن میری امی نے میری شادی شدہ زندگی میں کبھی کسی قسم کا دخل نہیں دیا اور کبھی میں نے کوئی بات کہی بھی تو انہوں نے سن کر بھی ان سنی کر دی۔ ایسی کوئی رائے یا مشورہ نہیں دیا جس سے مجھے شَہ ملے۔ ماؤں کو خاص طور پر میاں بیوی کے درمیان چپقلش میں بالکل بھی دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ شوہر کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو یہ بات اسے ناگوار ضرور گزرے گی۔

لیکن میں یہ بھی کہوں گی کہ ماؤں کو بالکل ہی بے نیاز نہیں ہوجانا چاہیے، اگر کوئی بیٹی مظلومیت کا اظہار کر رہی ہے اور یہ معمول بن جائے تو اس جانب دھیان ضرور دینا چاہیے اور پھر حالات کا جائزہ لے کر غیر جانب داری سے بیٹی کو ایسی رائے دینی چاہیے جس سے اس کا گھر خوشیوں کے ساتھ بسا رہے۔ ماں کو چاہیے کہ اپنی بیٹی کو حالات کا مقابلہ کرنے کی سمجھ اور قوت دے۔ آخر ہماری ماؤں نے بھی تو اچھے برے حالات دیکھے ہی ہیں تو پھر کیوں نہ ہم بھی اپنے وسائل دیکھتے ہوئے اپنی خواہشات پوری کریں۔ میں سمجھتی ہوں صرف بیٹی ہی نہیں بیٹے کی ماں کا کردار بھی بہت اہم ہے۔اگر میاں بیوی کے درمیان کوئی اختلاف یا رنجش ہو تو دونوں کی مائیں مل بیٹھ کر اس کا حل نکالیں۔ ورنہ بقول شاعر
دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے

قارئین! اس سروے میں‌ حصّہ لینے والی تمام خواتین کی رائے یہی ہے کہ شادی شدہ بیٹیوں کے نجی معاملات میں ان کی ماؤں کی بے جا دخل اندازی اور غیر ضروری طور پر بچّیوں کے گھر کے معاملات کو نہیں کریدنا چاہیے۔ جب اوائلِ عمر ہی سے ماؤں اور دیگر عمر رسیدہ خواتین کا بچّیوں سے رویہ یہ ہو کہ

ہر لڑکی کے ذہن میں سب نے ایک ہی بات بٹھائی ہے
اس کو اپنے گھر جانا ہے یہ دہلیز پرائی ہے
(عنبرین حسیب عنبرؔ)

تو بیٹی کو اپنے گھر کا صحیح مفہوم بھی سکھا دینا چاہیے کہ محض گھر والا ہی نہیں گھر والے بھی اس کے اپنے ہیں۔ معاملہ میاں بیوی کے مابین ہونے والی ان بن کا ہو یا سسرال والوں سے کسی بھی اختلاف کا، بیٹی کی ماں کے کانوں تک جب بات پہنچے تو اسے بیک وقت ماں، راہ نما، استاد، مصلح اور بے لوث محبت کرنے والے دوست کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اگر مداخلت اتنی ہی ناگزیر ہے تو ماں کو جوش سے زیادہ ہوش سے کام لینا چاہیے۔

بیٹی کو مشورے ضرور دیں لیکن ایسے مشورے کہ وہ خود کو مظلوم سمجھ کر نفسیاتی مسائل کا شکار نہ ہو بلکہ اس کی زندگی اور گھر دونوں جنت کا نمونہ بن جائیں۔ اسی میں ماں کی جیت بھی ہے اور بیٹی کی خوشی بھی۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں