بلاشبہ اولاد کی اوّلین درس گاہ ماں کی گود ہوتی ہے۔ ماں اپنی ممتا اور فطری محبّت سے اولاد کی تربیت کی ذمہ داری عمر بھر خوش اسلوبی سے نبھاتی ہے۔
فرائیڈ نے کہا تھا کہ ”بچّہ اپنی زندگی کے ابتدائی سالوں میں جس طرزِ حیات کا عادی ہوجاتا ہے، وہ زندگی بھرغیرمتغیر رہتا ہے۔‘‘
بیشک یہ ماں پرمنحصر ہے کہ وہ اولاد کی تعلیم و تربیت کے لیے کیا اصول وضع کرتی ہے۔ بیشتر مائیں لاشعوری طور پر اپنے بچّوں کی تربیت میں اپنی ماں کی تربیت کے رنگ شامل کرنا چاہتی ہیں، اُن کی خواہش اور کوشش یہی ہوتی ہے کہ اپنی اولاد کو کام یاب زندگی گزارنے کے وہ گُر ضرور سکھا دیں جو اُنھوں نے اپنی ماں سے سیکھے اور وہ ایسا کرتی بھی ہیں۔
دنیا ہر سال مئی کے مہینے میں ماؤں کا عالمی دن مناتی ہے اور اسی مناسبت سے ہم نے معروف اور چند گھریلو خواتین سے معلوم کیا کہ انھوں نے اپنی ماں سے کیا سیکھا اور ان کی تربیت میں ایسی کیا چیز شامل تھی جسے ماں بننے کے بعد خود انھوں نے اپنی اولاد میں منتقل کیا؟
مہناز رحمٰن (ریذیڈنٹ ڈائریکٹرعورت فاؤنڈیشن)
نرمی، محبت، اخلاقی اقدار، مطالعے کا شوق۔ اور شکر ہے کہ یہ ساری باتیں میرے بچّوں میں منتقل ہوئیں۔ میری امی ایک بہت خوبصورت خاتون تھیں۔ انہیں زندگی خوبصورت طریقے سے گزارنے کا شوق تھا۔ اُنہیں موسیقی، شاعری اور ادب سے لگاؤ تھا۔
پروفیسر رضیہ سبحان (ماہرِ تعلیم، شاعرہ، مصورہ)
مجھے میری ماں سے صبر و ضبط، بردباری اور شکر کا جذبہ ملا ہے۔مجھے بزرگوں کا ادب اور عزت سکھائی۔ غرض یہ کہ وہ تمام باتیں میری تربیت کا حصہ رہیں جو ایک کامیاب زندگی گزارنے کے لیے اشد ضروری ہیں اور الحمدُللہ میں نے اپنے بچوں کی تربیت میں ان باتوں کا دھیان رکھا۔ماشاء اللہ آج میرے چاروں بچے تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے انسان بھی ہیں اور بہترین زندگی گزار رہے ہیں۔
ناہید سلطان مرزا (ناول نگار، صحافی)
آپ کے سوال سے میں اپنے ماضی میں پہنچ گئی۔ گھر کا مجموعی ماحول اولاد کی پہلی درسگاہ ہوتا ہے۔ ہماری ماں نے ہمارے لیے عملی نمونہ پیش کیا، نصیحتوں کا پلندہ نہیں۔ آپ نے بیٹے، بیٹی کی تخصیص کے بغیر اپنی اولاد کو اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ ہمیشہ آپ کا زور کردار کی تعمیر پر رہا۔ اگر آپ جھوٹ، دھوکہ، بدسلوکی کو برا سمجھتی تھیں تو آپ نے سچائی، دیانتداری ، ایماندای اور حسنِ سلوک کا عملی نمونہ ہمارے سامنے پیش بھی کیا۔ بلا شبہ امی اعلیٰ اخلاق و کردار کی بہترین مثال تھیں۔ جب ہم خود ماں کے درجے پر فائز ہوتے ہیں تو اس وقت تک اپنی ماں کی تربیت سے جو کچھ حاصل کیا ہوتا ہے اپنے اندر جذب کر چکے ہوتے ہیں اور شعوری و لاشعوری طور پر ماں سے سیکھی جانے والی ہر چیز اپنی اولاد میں منتقل کر دیتے ہیں۔ کامیابی کے لیے امی نے شارٹ کٹ کو کبھی پسند نہیں کیا اپنی محنت اور صلاحیتوں کے بل بوتے پر کامیابی حاصل کرنے پر یقین رکھتی تھیں۔امی ہمت ہارنے والوں میں سے نہیں تھیں۔ آپ نے ہمیں کامیابی کی اُمید میں مزید محنت کرنا سکھایا۔ امی کی یہی خوش امیدی اور حوصلہ افزائی مجھ میں منتقل ہوئی اور اب میری اولاد یہ سب مجھ سے سیکھ رہی ہے۔
آمنہ مفتی (قلم کار، ناول نگار)
امی کو نسل پرستی، عصبیت اور غرور سخت ناپسند تھا۔ دیگر مذاہب کا بھی احترام کرتی تھیں۔ انسانیت ان کی اوّلین ترجیح تھی۔ ہم نے بچپن ہی سے اپنے گھر میں کرسچن اسٹاف دیکھا جس کے ساتھ امی نے کوئی تفریق نہیں کی، ہم ساتھ اُٹھتے بیٹھتے اور کھاتے پیتے تھے۔ اپنے ملازمین کے مذہبی تہواروں کے موقع پر امی بہت اہتمام کرتی تھیں۔ بہت شوق سے اُن کے لیے لباس تیار کرواتیں اور اُن کے ساتھ ان کے تہوار منواتی تھیں۔ چندا نامی خواجہ سرا ہمارے گھر آتا تھا جس سے امی اپنی اولاد کی طرح پیار اور محبت سے پیش آتیں۔ جب ہم نے چندا کو امی کے انتقال کی خبر دی تو جیسے ہم سات بیٹیاں رو رہی تھیں، تڑپ رہی تھیں، اسی طرح وہ بھی ان کی اولاد کی طرح اشکبار تھا۔ ہم سے کون اتنی محبت اور پیار کرتا ہے، اپنے ساتھ بٹھاتا کھلاتا اور ساتھ نبھاتا ہے۔ امی نے ہم سے کبھی نہیں کہا کہ یہ معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے لوگ ہیں یا جو اقلیت ہیں ان سے اچھا رویہ رکھو۔ امی کا ان سے حسنِ سلوک اور رویہ ہم نے دیکھا، ہمارے بچوں نے بھی دیکھا۔ امی ہمارے لیے رول ماڈل تھیں۔ مجھے خوشی ہے کہ میرے بچوں میں بھی یہ وسعتِ قلبی، رواداری اور انسانیت سے محبت کا جذبہ پروان چڑھ رہا ہے۔
روبینہ اشرف (ٹی وی آرٹسٹ)
آج میں اپنی اولاد میں ہر وہ چیز منتقل کر رہی ہوں جو میں نے اپنی ماں سے سیکھی یعنی اچھی تعلیم دینا، ادب کرنا اور یہ کہ فیملی کی قدر و قیمت اور اہمیت کتنی ہے، فیملی میں سب کو ساتھ لے کر کس طرح چلناچاہیے، بچوں کی اچھی تربیت کس طرح کرنا چاہیے۔
سیما کلیم (سابق ٹینس چمپیئن)
ہمارے ددھیال، ننھیال میں مشہور ہے کہ ہماری ماں جیسی خدمت گزار ہر ایک کے کام آنے والی کوئی نہیں ہو سکتی۔ وہ کہتی تھیں کل کبھی نہیں آئے گا۔ کچھ بھی ہو جائے آج کا کام آج ہی کرو اور کہتیں کہ کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہوتا بیٹا! سب سے برابر کا سلوک کرو۔ میرے بچے ماسیوں اور ڈرائیور کی بھی بہت عزت کرتے ہیں۔ سچ بولنا، وقت کی قدر کرنا، دوسروں کے کام آنا، ان تھک محنت کرنا میں نے اپنی ماں سے سیکھا اور یہی تربیت میں نے اپنے بچوں میں منتقل کر دی۔
شگفتہ شفیق (شاعرہ، افسانہ نگار)
میری ماں ایثار و قربانی، صبر و حوصلہ، سلیقہ شعاری اور محبت کی عظیم مثال تھیں۔ بے حد خوش مزاج تھیں، اُن کا حلقۂ احباب بہت وسیع تھا، بہترین کھانا پکانا جانتی تھیں۔ وہ ما شاء اللہ بہت پرفیکٹ تھیں، میں جب بھی کبھی سوچتی ہوں تو حیران رہ جاتی ہوں اور اپنے طور میں نے یہی کوشش کی کہ ان کی تمام خوبیوں کو لے کر چلوں اور اللہ کا شکر ہے میں نے امی کی تربیت اپنے بچوں میں منتقل کی۔ آج سب میرے بچوں کی تعریف کرتے اور ان سے ملنا پسند کرتے ہیں۔
سلمیٰ حسن (آرٹسٹ)
جو ایک چیز میں نے امی سے سیکھی اور مجھے لگتا ہے کہ میری اولاد میں بھی ہونی چاہیے۔ وہ ہے دوسروں کے لیے دل میں ایک احساس رکھنا، ان کے جذبات کا خیال رکھنا۔ دوسری چیز ہے اچھا اخلاق اور تمیز۔ شکر ہے کہ میرے بچے با اخلاق اور تمیز دار ہیں۔
اُمِ راحیل (ماہرِ غذائیت)
میری امی نے کبھی مایوس نہیں ہونے دیا۔ مشکل ترین حالات میں جب ہمت بالکل ختم ہو گئی، ہاتھ پیر چھوڑ دیے، تب بھی انہوں نے ایک ہی بات کی کہ کبھی کسی کی محتاج نہ بنو۔ اللہ نے علم و ہنر دیا ہے۔ محنت کرو اپنے پیروں پر کھڑی ہو، مظلوم نہیں، باہمّت بن کر وقت کا مقابلہ کرو۔ پیارے رشتوں کو پیار سے ترس اور بوجھ نہ بننے دو اور یہ امی کی دلائی ہوئی ہمت ہے جو میں آج تک کچھ کر پائی ہوں اور یہی میں نے اپنی اولاد میں منتقل کر دیا۔
ثوبیہ خانم (پروڈیوسر پی ٹی وی)
میری ماں میں حوصلہ اور برداشت بہت زیادہ تھی۔ کبھی کسی بچے کو بڑی چوٹ بھی لگ جاتی تو پریشان ہوئے بغیر اسے بہترین انداز میں طبی امداد دے دیا کرتی تھی۔ اسی طرح بڑے سے بڑے مسئلے پر بھی گھبراتی نہیں تھیں۔ دوسری بڑی خوبی ان کی مہمان نوازی تھی۔ ہمارے گھر تھوڑی دیر کے لیے آنے والے مہمان تو ہوتے ہی تھے لیکن کئی کئی ماہ رہنے والے مہمان بھی بہت آتے تھے، لیکن ان کی وجہ سے اپنی والدہ کے ماتھے پر کبھی بھی کوئی شکن نہیں دیکھی۔ وہ ہمیشہ اچھی مہمانداری کرتی تھیں، شاید اس وجہ سے ہمارے گھر میں ہمیشہ رزق میں برکت رہتی تھی۔ ماں سے یہی تربیت حاصل کر کے اپنی اولاد میں منتقل کر دی۔
ڈاکٹر بینش حنیف (چائلڈ اسپیشلسٹ، امریکہ)
میں خوش نصیب ہوں کہ اللہ نے مجھے اعلیٰ تعلیم و تہذیب یافتہ ماں عطا کی۔ میں نے اپنی ماں کی تربیت سے بیش بہا خزانے حاصل کیے۔ جن کا فائدہ بچپن سے آج تک وقتاً فوقتاً ملتا رہتا ہے۔ سب سے پہلی چیز ادب ہے۔ دینِ اسلام کی بنیادی تعلیم جس میں نماز اور قرآن پاک کو سمجھ کر پڑھنا، حق و باطل کا فرق سمجھنا، زندگی گزارنے کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے، میں جہاں رہتی ہوں وہاں بچوں کو قدم قدم پر صحیح اور غلط کا فرق اور اپنے دین اور ایمان پر کامل رہنے کا درس دینا پڑتا ہے۔ تصورِ آخرت اور ابدی زندگی کے عقیدے سے واقفیت انتہائی ناگزیر ہے۔ یہ باتیں میں نے اپنی والدہ سے بڑی اچھی طرح سے جانیں جس کی بنیاد پر الحمدُللہ بہت سی مشکلات اور پریشانیوں سے اللہ نے مجھے محفوظ رکھا۔ امی کی تربیت نے مجھے محبت، قربانی، ایثار کا سبق سکھایا اور میں بھی بچوں کو تربیت کے اسی سانچے میں ڈھال رہی ہوں۔
مریم تسلیم (افسانہ نگار، مصورہ)
میری امی نے مجھے گھر کا ہر کام سکھایا اور میری ایسی تربیت کی کہ آج میں اپنا گھر سلیقے سے چلا رہی ہوں، میری امی بہت نرم دل تھیں، ضرورت مند کی مدد کیے بغیر نہیں رہتی تھیں، اور میں نے بھی اپنے بچوں کی تربیت میں یہ شامل کیا، کہ وہ اپنا کام خود کریں اور ضرورت مند کی مدد کرنے میں دیر نہ لگائیں۔
ہما سلیمان (پی ایچ ڈی اسکالر، پرنسپل)
سچائی، اصولوں کی پاسداری، نظم و ضبط اور وقت کی پابندی کے زریں اصول میری والدہ کا شعار ہیں۔ یہی وہ کنجیاں ہیں جو کامیابی کی ضامن ہیں اور میں نے اپنی اولاد میں یہ چیزیں منتقل کر دیں۔
حنا علی رضوی ( خاتون خانہ، شارجہ)
میں نے اپنی ماں سے positivity کی عادت لی ہے۔ ہر ایک کے لیے اچھا اور مثبت سوچنا۔ کسی کے لیے بھی کبھی منفی سوچ نہیں رکھی، میں نے اپنے بچوں کی بھی یہی تربیت کی ہے۔
شازیہ فرخ (معلّمہ)
رشتوں کو نبھانا…. چاہے وہ سسرالی ہوں یا میکے کے۔ یا اُن سے تعلق کی نوعیت خواہ کچھ بھی ہو ان کے لیے قربانی دینا اور برداشت بہت ضروری ہوتی ہے، یہی ماں سے سیکھا اور میں نے اپنی بیٹی کو بھی یہی سکھایا ہے۔
فرناز رئیس (گھریلو خاتون)
امی سے میں نے برداشت، صبر و قناعت، غیبت نہ کرنا، کسی کے راز کو راز رکھنا، ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا سیکھا اور اپنے بچوں کو بھی سکھایا۔ اس کے ساتھ ساتھ شوہر کی اطاعت اور خدمت کرنا اور سب سے بڑی بات چھوٹے بچوں کے ساتھ جوانی میں عبادت کرنا سیکھا اور اپنی بیٹی کو بھی یہی تربیت دے رہی ہوں۔
قارئین! آج کی مائیں اپنی ماؤں کی تربیت کے زیر اثر پورے شعور کے ساتھ بچوں کے حال ہی کی نہیں مستقبل کی بھی بہتری چاہتی ہیں، وہ اپنے بچوں کو اخلاقی سطح پر مضبوط دیکھنا چاہتی ہیں، اسی لیے اُن کی تعلیم و تربیت میں ذاتی دلچسپی لیتی ہیں کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ
میری آغوش میں یہ چمکتا ہُوا چاند
فردا کے خوابوں کی تعبیر ہے
یہ نئی نسل کے حوصلوں کا امین
آنے والے زمانے کی تقدیر ہے
اداؔ جعفری