پاکستان میں تمام کھیلوں میں سب سے زیادہ اہمیت کرکٹ کو حاصل ہے جب سے ٹی 20 جیسے تیز ترین فارمیٹ کی کرکٹ ہونا شروع ہوئی ہے تب سے اس کھیل میں لوگوں کی دلچسپی زیادہ ہی بڑھ گئی ہے جس کی بنیادی وجہ کم وقت میں بہترین انٹر ٹینمینٹ دیکھنے کو مل جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ کل کہ سپراسٹاد کبھی عوام کو ہیرو لگتے ہیں اور کبھی زیرو … کبھی کھلاڑیوں کو عوام کے بے حد غہصے کا سامنا کرنا پڑتا ہے اورکبھی عوام انھیں سرآنکھوں پر بٹھا لیتے ہیں تو کبھی تنقید کا نشانہ بھی بناتے ہیں مگر عوام کو بھی تنقید کرنے سے پہلےسوچنا چاہیے کہ کپتان جو بھی فیصلہ کرتا ہے وہ ٹیم کے لیے ہی کرتا ہے۔
پاکستان سری لنکا کے دورے پر تاریخی فتوحات سمیٹ چکا ہے جس میں تمام کھلاڑیوں کی محنت شامل ہے۔ پاکستان سری لنکا کی سیریز کچھ یوں رہی کہ 3 ٹیسٹ میچز کی سریز میں پاکستان نے سری لنکا کو 2 ۔1 سے شکست دے کرسریز اپنے نام کی جس میں مصباح الحق نے کپتانی کے فرائض انجام دیے جنھیں ماضی میں بہت سی تنقید کا سامنا کرنا پڑا مگر اس کے باوجود انھوں نے ٹیم کی بہت سی کامیابیوں میں اپنا کردار ادا کیا. مصباح الحق کی ہی کپتانی میں پاکستان 9 سال بعد سری لنکا میں کوئی ٹیسٹ سریز اپنے نام کرنے میں کامیاب ہوا۔
ٹیسٹ سریز میں فتح حاصل کرنے کے بعد ایک روزہ میچز کی سیریز میں بھی پاکستان نے اپنی فتوحات کا تسلسل برقراررکھا اور 5میچوں کی سیریز میں سری لنکا کو 3:2 سے شکست دے کرایک روزہ سیریز اپنے نام کرکے آئی سی سی کی رینکنگ میں آٹھویں پوزیشن حاصل کرلی۔
ایک روزہ میچز میں کپتانی کے فرائض نوجوان کپتان اظہر علی نے انجام دیے جس میں ان کی کارگردگی بطورکپتان متاثر کن تھی مصباح الحق اورماضی کے کپتانوں کی طرح اظہرعلی کو بھی بہت سے حلقوں کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا مگران کی کارگردگی نے انکے ناقدین کے منہ بند کردیے جس کے بعد ان کے ناقدین بھی ان کی تعریف کرنے پرمجبورہوگئے جو اظہر علی کے مستقبل کے لیے نیک شگون ہے۔
سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ اور ون ڈے سریز میں تاریخی فتوحات کے بعد ٹی 20 میں بھی پاکستانی ٹیم نے بہترین کارگردگی کا تسلسل برقرار رکھا جو تمام حریفوں کے لیے خطرے کی گھنٹی کے مترادف ہے۔ دوسری جانب پاکستان نے ٹی 20 سریزمیں بھی اپنی بہترین کاردگی کے ذریعے سری لنکن ٹیم کے چھکے چھڑادیے۔
پہلے ٹی 20 میں پاکستان نے بآسانی جیت حاصل کی مگرآخری ٹی20 میچ نے سب کو کلمے پڑھوادیے سری لنکا نے سیریز اور ٹی20 کے آخری میچ بہترین کاردگی دکھائی اور 172 رنز کے پہاڑ جیسا ہدف کھڑا کرکے پاکستان کے لیے مشکل کھڑی کردی اور وہی ہوا جو پاکستانی کھلاڑی ہمیشہ کرتے ہیں بڑا ہدف تعاقب کرتے ہوے پاکستانی بیٹسمین اپنی بیٹینگ ہی بھول گئے اور ایک کے بعد پویلین چلتا بنا .50 پر 5 وکٹیں گرنے کے بعد قوم نے پاکستان کی جیت کے لیے ہاتھ اٹھا لیے۔
پاکستانی قوم کی دعائیں رنگ لے آئیں اورشاہد آفریدی، انورعلی، عماد وسیم اوررضوان کی بہترین اننگ نے مشکل اور مصیبت میں پھنسی پاکستانی ٹیم کی کشتی کو بنھور سے نکال کر سرخرو کردیا. چوکوں ،چھکوں کی بارش نے سب کو خوش کردیا اور پاکستان نے سری لنکا کوٹی 20 میں بھی شکست دے کروائٹ واش کردیا۔
میچ سے قبل اور میچ کے دوران شاہد آفریدی کو بے حد تنقید کا سامنا کرنا پڑا اوراس تنقید کی وجہ تھے وکٹ کیپربیٹسمین سرفراز جو بہترین کاردگی کے باوجود ٹی 20 کے دونوں میچز میں شامل نہ تھے۔
سابق کھلاڑیوں اورعوام کی حسب روایت تنقید کے باوجود شاہد آفریدی نے اپنے ناقدین کو اپنی کاردگی سے سب کو خاموش کروادیا۔ اصولی طور پر ہونا بھی یہی چاہیے کہ جس کھلاڑی کو بھی تنقید کا سامنا ہو وہ اپنے ناقدین کو اپنی پرفانس سے خاموش کروائے۔
یہاں میں شاہد افریدی کی حمایت میں یہ کہنا چاہوں گا کہ بے شک سرفراز ایک بہترین کھلاڑی ہے مگر ہمارے سابق کھلاڑیوں کو کسی پر تنقید سے پہلے تھوڑا صبر سے کام لینا چاہیے سری لنکا کے خلاف دوسرے ٹی20 کے میچ کے دوران شاہد آفریدی پر دوگنا پریشرتھا ایک تو یہ کہ انھیں گراونڈ سے باہرکے لوگوں کی بے حد تنقید کا سامنا تھا دوسرا یہ کہ اس میچ میں پاکستان کی بیٹنگ اور بالنگ دونوں ہی متاثر کن نہیں تھی۔
بیشک پاکستان سری لنکا کے خلاف تمام فارمیٹ کی سیریز میں کامیاب ہوگئی مگرہمیں اپنے رویوں پر غور کرنا چاہیے عوام کو جذبات سے نہیں کچھ باتیں دماغ سے بھی سوچنا چاہیے ٹیم کی سلیکشن کپتان کی منظوری سے ہی ہونا چاہیے ورنہ ایسے ڈمی کپتان کا فائدہ نہیں جو کسی اور کے اشاروں پر چلے مگر وہیں پریہ بات کپتان پر بھی لازم ہے کہ کپتان اگر کسی بہترین کھاڑی کو ڈراپ کرتا ہے تو وہ قوم کو اس کی قابلِ قبول وجہ بتانے کا بھی مجازہوتا ہے۔