’’ یہ سب کیا ہورہا ہے؟‘‘
’’بلدیاتی انتخاب ہورہے ہیں۔‘‘
’’ لگتا ہے تو ایسے ہے جیسے فری اسٹائل ریسلنگ ہو رہی ہو۔‘‘
’’ یہ تو ابھی انتخاب کا پہلا راؤنڈ ہے۔۔۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟‘‘
’’اگر ہم میں برداشت نہیں ہے تو پھر ہم انتخابات کرواتے کیوں ہیں؟‘‘
’’ اس لیے تاکہ ہم میں برداشت پیدا کی جاسکے۔‘‘
’’ برداشت کیااس طرح پیدا کیا جاتا ہے!!لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تمہارے انتخاب کے چکر میں۔‘‘
’’ آپ نے سنا نہیں ، کہتے ہیں ہمت ہے تو کراس کر، ورنہ بیٹا برداشت کر!‘‘
’’ برداشت نہیں ہوتا یہ سب کچھ دیکھ کر۔۔۔ ‘‘
’’برداشت کرلو تو اس میں تمہاری بہتری ہے۔۔۔ ورنہ نتائج تمہارے سامنے ہیں!‘‘
’’ واقعی انتخاب کے نتائج بہت بھیانک ہیں۔۔۔ بلکہ بہت سنگین ہیں!!‘‘
’’انتخابات آزادانہ ماحول میں ہوئے ہیں۔‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘
’’ آزاد امیدوار وں کا اتنی بڑی تعداد میں جیتنا اسی بات کی طرف اشارہ ہے۔‘‘
’’میں توکہتا ہوں آزاد امیدواروں کو بھی اپنی ایک پارٹی بنانا چاہیے جس کا نام ہو آزاد پارٹی۔‘‘
’’ آئیڈیا برا نہیں۔۔۔ پارٹیاں تو بہت ہیں لیکن آزاد کوئی نظر نہیں آتی۔‘‘
’’مجھے لگتا ہے دھاندلی ہوئی ہے۔‘‘
’’ وہ کیسے؟‘‘
’’ تم دیکھ نہیں رہے کہ پی ٹی آئی کے بہت کم امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔‘‘
’’تو اس سے کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’ اس سے پتا چلتا ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے۔‘‘
’’ دھاندلی کو ثابت کرنا پڑے گا۔‘‘
’’ وہ کیا مشکل کام ہے صرف دھرنا دینا ہوگا اور دھاندلی ثابت ہوجائے گی۔‘‘
’’اب دھرنوں کا وقت گزر گیا ۔۔۔ تبدیلی ووٹ سے آئے گی دھرنوں سے نہیں۔‘‘
’’ ووٹ سے تبدیلی نہیں آرہی اسی لیے تو کہہ رہا ہوں کہ دھرنا دینا ہوگا۔‘‘
’’ اپنی باری کا انتظار کرو، وہ کہتے ہیں ناں کہ ضد نہ کر اساں آپ بڑے ضدی آں(ہم خود بہت ضدی ہیں)۔‘‘
’’ اس میں ضد کی نہیں اصول کی بات ہے، انصاف کی بات ہے۔‘‘
’’ انصاف کی بات ہے تو عدالت میں کرو اور اگر اصول کی بات ہے تو الیکشن کمیشن میں کرو۔‘‘
’’ اس طرح تو پورے پانچ سال مکمل لگ جائیں گے۔‘‘
’’ تو پھر انتظار کرو۔‘‘
’’ہم انتظار نہیں کرسکتے ۔‘‘
’’انتظار تو آپ کو کرنا پڑے گا، چاہے وہ بجلی آنے کا ہو ، گیس آنے کا ہو، مہنگائی جانے کا ہو یا پانی آنے کا۔‘‘
’’پچاس سال ہوگئے انتظار کرتے ہوئے اب مزید انتظار نہیں ہوتا ۔مر جائیں گے تو کیا انصاف کروگے۔‘‘
’’ نہیں مرنے دیں گے آپ کو ، فکر نہ کریں۔ آپ ہوں نہ ہوں لیکن ہم آپ کا نام ووٹر لسٹ میں کم از کم ضرور زندہ رکھیں گے۔‘‘
’’ہم نہ ہوں ہمارے بعد۔۔۔‘‘
’’انتخاب ۔۔۔انتخاب!‘‘
’’جب تک سورج چاند رہے گا۔۔۔‘‘
’’ووٹر تیرا نام رہے گا!!‘‘
’’چلو یار ہم بھی تیاری کرتے ہیں اگلے راؤنڈ کی۔۔۔ ہوسکتا ہے اس بارہمارا بھی نام نکل آئے۔‘‘
’’سوچ لو۔۔۔ انتخاب کے نتائج آپ کے سامنے ہیں!!پتا ہے ناں پھر کیا ہوگا اگلے راؤنڈ میں!!‘
میر شاہد حسین نے اپنے قلمی سفر کا آغاز بچوں کے ایک معروف رسالے سے 1995ءمیں کیا بعد ازاں آپ اسی رسالے کی ادارت سے منسلک ہوئے اور پھر اس کے مدیر بھی رہے، آپ کو بچوں کے ادب میں کئی ایوارڈزسے بھی نوازا گیا جن میں نیشنل بک فا ؤنڈیشن بھی شامل ہے
شاید آپ یہ بھی پسند کریں
نوٹ: اے آروائی نیوزکی انتظامیہ اور ادارتی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے کروڑوں ناظرین تک پہنچے تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 700 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، سوشل میڈیا آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعار ف کے ساتھ ہمیں ای میل کریں ای میل ایڈریس: [email protected] آپ اپنے بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنک بھی بھیج سکتے ہیں۔