The news is by your side.

الن کلن کی باتیں: کیاعید قرباں سے پہلے سیاسی قربانی ہوگی؟

’’ایک عید تو گزر گئی اب دوسری عید کا انتظار ہے؟‘‘
’’ابھی تو روزے گزرے ہیں ،قربانی میں تو ابھی بہت وقت ہے۔‘‘
’’ عید قرباں سے پہلے ایک سیاسی قربانی بھی تو ہوسکتی ہے۔‘‘
’’تمہارا اشارہ جے آئی ٹی کے فیصلہ کی طرف ہے۔‘‘
’’اشارے کی توہمیشہ آپ کو ضرورت رہتی ہے ۔جے آئی ٹی کو اشاروں کی ضرورت نہیں، وہ سب سمجھتے ہیں ۔‘‘
’’ اگر سب سمجھتے ہیں تو پھر یہ سب پریس کانفرنس کرکے انہیں کیوں سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں۔‘‘
’’سمجھدار کے لیے اشارہ کافی ہوتا ہے اور انہیں اشارے کی ضرورت نہیں۔‘‘
’’اشاروں پر تو پورا ملک چل رہا ہے ، دیکھتے نہیں ہر بڑے چوک پر سگنل لگا ہوتا ہے ۔‘‘
’’اب اشاروں کا دور گزر گیا ، اسی لیے تو ہر سگنل پر پل بنانے کا کام جاری ہے، تاکہ کسی کو رکنا نہ پڑے۔‘‘
’’ نواز شریف اور زرداری مل کر جمہوریت کی پٹری پر جتنے مرضی پل بنا لیں ،پٹری بدلنے والے جب تک باہر موجود ہیں ، یہ جمہوریت کی گاڑی چلنے والی نہیں۔‘‘
’’جمہوریت کی گاڑی کو اگر چلانا ہے تو انہیں چاہیے گاڑی کے الگ ٹریک بنائیں تاکہ ہر کوئی اپنے اپنے ٹریک میں چلے  یوں پٹری بدلنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔‘‘
’’اس کے لیے ان کا ٹریک ریکارڈ بھی تو ٹھیک ہونا ضروری ہے۔ ‘‘
’’ٹریک ہوں گے تو ٹریپ بھی کم ہوں گے۔‘‘
’’جمہوریت کی گاڑی نے بھی تو دو ہی اسٹیشن دیکھ رکھے ہیں، کبھی لاہور جاتی ہے تو کبھی لاڑکانہ آتی ہے، کیا یہی دو اسٹیشن رہ گئے ہیں پاکستان میں جمہوریت کی گاڑی کے لیے؟‘‘
’’کیا کریں بھائی جمہوریت کی گاڑی چھوٹے اسٹیشنوں پر نہیں رکتی۔‘‘
’’مجھے تو اس گاڑی کا انجن ہی فیل ہوتا نظر آرہا ہے۔اسی لیے نئے انجن تیاری کے مراحل میں ہیں۔‘‘
’’نئے انجن چلتے کم ہیں دھواں دار تقریریں زیادہ کرتے ہیں۔‘‘
’’لندن والے انجن کا کیا ہوا ؟ وہ بھی بڑی آوازیں کرتا تھا اور بڑا دھواں چھوڑتا تھا۔‘‘
’’اب تو اس کی بوگیاں ہی رہ گئیں ہیں۔ اسے خاموش کر دیا گیا ہے کیونکہ اس سے آلودگی میں بہت اضافہ ہو رہا تھا۔‘‘
’’ یہ تو بہت زیادتی ہے ، کراچی والے اب کس گاڑی میں سفر کریں گے؟‘‘
’’نئے انجن فٹ کیے ہیں لیکن ابھی دیکھنا ہے کہ وہ کتنا لوڈ اپنے ساتھ لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟‘‘
’’جمہوریت کی گاڑی پر جو پانامہ کی گندگی ہے ، عدالتی صفائی کے بعد جب تک جے آئی ٹی رپورٹ نہیں آتی ،کچھ کہنا قبل از وقت ہے کہ اس گاڑی کو چلنا بھی ہے کہ اسے بند ہونا ہے۔‘‘
’’مجھے تو یہ جمہوری گاڑی کے خلاف سازش لگتی ہے کیونکہ پانامہ کے گند میں دو سو سے زائد پاکستانیوں کا نام آیا تھا لیکن صفائی کے لیے صرف شریف ہاتھ آئے ہیں۔‘‘
’’ یہی تو مسئلہ ہے کہ یہ شریف ہیں اور باقی شریف نہیں ہیں۔ جس ادب و احترام کے ساتھ یہ عدالتوں اور تفتیش کے لیے حاضری لگا رہے ہیں یہ عوام کے لیے مثال ہیں ۔‘‘
’’ کیا عوام بھی اسی ادب و احترام کے ساتھ عدالت اور تھانوں میں جاسکتی ہے؟‘‘
’’کیوں کیا تم نے عوام کو شریف سمجھ رکھا ہے؟‘‘
’’ عوام کی شرافت کا اندازہ تو آپ اس سے ہی کرسکتے ہیں کہ انہوں نے شریفوں کو ووٹ دے کر منتخب کیا ہے۔‘‘
’’عوام تو بے چاری ہے جس کے پاس کوئی چارہ نہیں کہ وہ یہ پانامہ کا ڈرامہ دیکھتی رہے۔‘‘
’’پانامہ کا ڈرامہ اسٹار پلس کے طویل ڈراموں سے بھی بازی لے گیا ہے۔اس کا اختتام ڈرامائی موڑ پر ہونے سے پہلے ہی تم دیکھ لینا بجلی چلی جائے گی۔‘‘
’’جب تک اس ڈرامہ کی اگلی قسط آتی ہے ،کوئی نیا ڈرامہ دیکھتے ہیں۔‘‘
’’اتنے عرصہ سے ہم یہ ڈرامے ہی تو دیکھ رہے ہیں ،چلو تم بھی دیکھو ، میں بھی دیکھوں …‘‘


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں