ندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے دوران کچھ اضلاع کی صورتحال گذشتہ آٹھ اضلاع سے مختلف ہے، پندرہ اضلاع میں سے کم از کم پانچ ایسے اضلاع ہیں جہاں حکمران پیپلز پارٹی کو اپنے مخالفین کے سامنے اپنی طاقت دکھانے اور زیادہ توانائی دکھانے کی ضرورت پڑرہی ہے جبکہ پیپلزپارٹی کے سب بڑے مخالف اور مسلم لیگ فنکشنل کے گڑھ سانگھڑ میں پہلے ہی بلدیاتی انتخابات منسوخ کئے گئے ہیں توعملی طورپرچودہ اضلاع میں انتخابات ہو رہے ہیں۔
سندھ کے دوسرے بڑے شہراورکراچی کے بعد سب سے بڑی میونسپل کارپوریشن حیدرآباد کے شہری علاقوں میں تو ایم کیو ایم کے حق پرست امیدواروں کی فتح یقینی نظر آرہی ہے،کیونکہ حیدرآباد کے شہری علاقوں میں تو حکمران پیپلزپارٹی کے مضبوط امیدوار ہی نظر نہیں آرہے،اب تک حق پرست گروپ کے پچاس سے زائد امیدوار بلامقابلہ کامیاب ہوگئے ہیں، البتہ حیدرآباد کے دیہی علاقوں میں پیپلز پارٹی کے علاوہ بعض مقامات پرسندھی قوم پرست جماعتوں کے علاوہ آزاد امیدوار بھی مقابلے میں کھڑے ہیں۔
سندھ کا پر امن خطہ کہلوانے والے لاڑکے مرکزی شہر بدین میں بڑے انتخابی معرکے متوقع ہیں، یہ ہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی اورسندھ کی سرکار نے بدین میں اپنی اضافی طاقت، اضافی نفری،اور اضافی وسائل صرف کررکھے ہیں۔ ضلع بدین میں بلاول بھٹو کے بڑے جلسے کے دن ہی شام کو بلاول بھٹو زرداری کے چچا اورپیپلز پارٹی کے باغی رہنما ذوالفقار مرزا نے بڑا جلسہ کرکے دکھایا۔ سابق صدر آصف علی زرداری کے گہرے دوست ذوالفقار مرزا نے بلدیاتی انتخابات میں کھل کرمقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اوران کی اہلیہ رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا اور بیٹا رکن سندھ اسمبلی حسنین مرزا بھی انتخابی مہم میں ان کے ساتھ ہیں اورعوام کو پیپلز پارٹی کے خلاف ووٹ دے کرذوالفقارمرزا کے حامی امیدواروں کو کامیاب کرنے کی اپیل کررہے ہیں۔ یہ امکان موجود ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی فہمیدہ مرزا اور حسنین مرزا سے اسمبلی کی نشستیں چھین لے۔ بدین ضلع کی 68 یونین کونسلوں میں سے پچاس یونین کونسلوں پرذوالفقار مرزا کے امیدواربوتل کے انتخابی نشان کے ساتھ تیرکا مقابلہ کریں گے جبکہ دیگریونین کونسلوں پرڈاکٹرمرزا مسلم لیگ ( ن) اور مسلم لیگ فنکشنل کے امیدواروں کی حمایت کر رہے ہیں یہ دونوں جماعتیں بھی ذوالفقارمرزا کی حمایت کر رہی ہیں۔
ذوالفقار مرزا کا دعوہ ہے دھاندلی ہونے کی صورت میں بھی وہ ساٹھ فیصد نشستوں پر کامیابی حاصل کریں گے۔ ضلع بدین میں فوج نے انتظامات سنبھال لئے ہیں،تاکہ کسی بڑے دنگا فساد سے بچا جائے، بدین کے بعد سجاول اور ٹھٹھہ میں روایتی شیرازی گروپ کا اثرورسوخ برقرار ہے، شیرازی گروپ نے بھی انتخابی مہم کے دوران بڑے بڑے جلسے منعقد کئے اورریلیاں نکالیں۔ شیرازی گروپ مسلم لیگ ن کی چھتری تلے شیرکے نشان پرانتخابی مقابلہ کررہے ہیں۔ ان دو اضلاع میں بھی بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں بڑی ریلی نکالی گئی۔ سجاول شہر سے شروع ہونے والی یہ ریلی شیرازی گروپ کے آبائی گاؤں سیدپور سے جب گذر رہی تھی تو بلاول کی سیکیورٹی پر معمورسینکڑوں اہلکار پریشان دکھائی دے رہے تھے۔ تھرپارکر کے ضلع میں سابق وزیراعلیٰ ارباب غلام رحیم اور مسلم لیگ فنکشنل اپنی طاقت دکھانے کے لئے سرگرم ہیں۔ ارباب غلام رحیم نے بھی بڑے بڑے جلسوں کا انعقاد کیا ہے۔ ارباب غلام رحیم تھرکی سیاست میں طاقت ورتصور کیئے جاتے ہیں اور پہلی بار تھر کے مرکزی شہرمٹھی میں دھرنے لگے۔ تھرپارکر میں ارباب غلام رحیم گروپ کا پیپلز پارٹی سے ہی سخت مقابلہ ہوگا۔ اس کے علاوہ عمرکوٹ میں مسلم لیگ فنکشنل اور دادو میں مسلم لیگ (ن) کا لیاقت جتوئی گروپ،نوشہرو فیروز میں مرتضی جتوئی کے گروپ کے سامنے حکمران پیپلزپارٹی کو سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ چودہ اضلاع میں حکمران جماعت پیپلزپارٹی کا پلڑہ تو بھاری ہے پراب دیکھنا یہ ہے کہ نتائج کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔