The news is by your side.

سانحہ قصبہ و علیگڑھ کالونی اور دسمبر

دسمبر آتا ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے ہماری روز مرہ کی زندگی میں گھنے کالے بادل چھائے ہوئے ہیں اور نئی صبح کی کرنوں کی تلاش ہو ,شاید اسکی وجہ اس ماہ یا سال بھر میں رونما ہونے والے واقعات ہوں، دسمبر پاکستان کی تاریخی اعتبار سے بہت اہمیت کا حامل ہے، جب بھی دسمبر آتا ہے تو پاکستان میں سانحہ مشرقی پاکستان سقوط ڈھاکہ 16 دسمبر 1971 کے حوالے سے بحث و مباحثہ شروع کردیا جاتاہے اور پھر 43 سال بعد سانحہ آرمی پبلک اسکول میں 16 دسمبر 2014 کو 140 سے زائد بچوں اور اساتزہ کی شہادت کے بعد قومی سطح پر ایک اور سانحہ کا اضافہ ہوگیا، جس کے بعد دسمبر کے ان دو بڑے واقعات و سانحات کو قومی سانحہ تصور کیا جاتا ہے مگر ان کا کیا جو 14 دسمبر 1986 کو قصبہ و علیگڑھ کالونی کراچی میں بیدردی سے زندہ جلادیے گئے ، ماورائے عدالت قتل ہوئے ؟ سانحہ قصبہ و علیگڑھ کالونی 14 دسمبر 1986 کو قومی سانحہ تصور کیوں نہیں کیا جاتا ؟ پہلے ظلم و جبر سے کراچی میں بسنے والے اردو بولنے والے مہاجروں کو ختم کرنے کی کوشش کی ، جب جبر سے کچھ نہ ہوسکا تو انکی شہادتوں کو تاریخ سے مٹانے کی کوشش کی گئی مگر افسوس کہ ظلم و جبر سے حق کو مٹانے والے خود مٹ گئے مگر اپنے حق کے لیے جان دینے والے آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں ، سانحہ قصبہ و علیگڑھ وہ سانحہ ہے جسے ریاست تو بھلاسکتی ہے مگر وہ کیسے بھلا سکتے ہیں جنکے پیارے اس سانحے میں شہید و زخمی ہوئے، سانحہ قصبہ علیگڑھ کالونی بھی قومی سانحہ ہے جسے کبھی نہیں بھلایا جاسکتا۔

سانحہ قصبہ و علیگڑھ وہ سانحہ ہے جس نے سینکڑوں شہریوں کو اپنے پیاروں سے الگ کیا، بے گھر کیا، بے اولاد کیا، یتیم کیا، بیوہ کیا، مگر افسوس کوئی آج تک اس پر لب کشائی تو دور کی بات متاثرہ افراد کو انصاف کی فراہمی کی بات بھی نہیں کرتا، سانحہ قصبہ علیگڑھ کی اصل حقیقت کچھ یوں ہے کہ 12 دسمبر 1986 کو کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ میں منشیات فروشوں اور اسلحہ فروشوں کے آپریشن کیاگیا ، لیکن اس آپریشن میں ریاستی اداروں کو کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی ، منشیات فروشوں اور اسلحہ مافیا کے خلاف ہونیوالے آپریشن کے لیے پختون ایکشن کمیٹی نے احتجاج کیا اور آپریشن بند کرنے کا مطالبہ کیا اور بصورت دیگر کاروائی نہ روکنے پر غیر معینہ مدت کیلیے پہیہ جام ہڑتال کا اعلان کردیا، اور دوسری طرف سہراب گوٹھ کے مفرور اسلحہ فروش اور منشیات فروشوں نے اورنگی ٹاؤن اور اس کے ملحقہ علاقوں میں ہولناک خونریزی شروع کردی۔ اگلے روز 14دسمبر کی صبح تقریباً 6بجے پولیس اور انتیظامیہ کی سرپرستی میں ڈرگ مافیا ،اور اسلحہ مافیا کے دہشت گرد سینکڑوں کی تعداد میں جدید ترین یتھیاروں ہینڈ گرینیڈ اور آتشی پاوڈر سے لیس ہوکر پہاڑوں سے اترے اور انھوں نے اورنگی ٹاون کے علاقے قصبہ کالونی اور علیگڑھ کالونی کے مکینوں پر حملہ کردیا۔ مسلح دہشت گردبیگناہ شہریوں پر گولیاں برساتے رہے ، گھروں کو لوٹ کر آگ لگاتے رہے ، خواتین کی بے حرمتی کی جاتی رہی ، شیرخوار بچوں کو زبح کرتے رہے ، جیتے جاگتے زندہ لوگوں جلتی دھکتی ہوئی آگ میں جھونکتے رہے اور یہ سلسلہ مسلسل کئی گھنٹوں تک جاری رہا،  لیکن آفسوس یوں درندہ صفت دہشت گردوں کو کوئی روکنے والا نہ تھا ، نہتے اردو بولنے والے کراچی کے بے گناہ شہریوں کی جان و مال ، عزت و آبرو سے کھیلنے والے انسانیت کے دشمن دہشت گرد بلاخوف و خطر انتیہاء درندگی کا مظاہرہ کرتے رہے اور سینکڑوں چراغوں کو چند گھنٹوں میں گل کردیا اور انکے گھروں میں صف ماتم بچھا کر دہشت گرد واپس پہاڑوں پر چڑھ کر فرار ہوگئے ۔

اگلے روز 15 دسمبر 1986 کو روزنامہ جنگ لندن نے اس سانحہ کو اس طرح شائع کیا ” کراچی میں مسلح گروہ نے 54 افراد کو ہلاک کردیا ” سب سرخیاں کچھ اس طرح تھیں کہ ” شہر کی تاریخ کا بدترین فساد ، اورنگی میں 350سے زائد مکانات اور دکانیں نذرآتش ، کمسن بچوں کو آگ میں پھینک کر زندہ جلادیا گیا ، 310 افراد شدید زخمی اور حملہ آوروں کی درندگی 8 گھنٹوں تک جاری رہی۔

اسی اخبار نے اگلے روز 16 دسمبر 1986 کو لکھا کہ کراچی میں بربریت کا بدترین مظاہرہ مزید 60 افراد ہلاک کردیے گئے۔ یہ وہ حقائق ہیں جو اس وقت پرنٹ میڈیا نے شائع کیے جو اس وقت کی تاریخ کے مطابق تحریر کیے جسے کسی بھی وقت چیک کیا جاسکتا ہے ، یہاں المیہ تو یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں نہتے معصوم شہریوں کو شہید کردیا گیا مگر آج تک اس سانحے کے زمہ دران کو کیفر کردار تک نہ پہنچایا جاسکا، 14 دسمبر 1986 سانحہ نے انسانیت کی بیبسی کی وہ مثال قائم کی جسکی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی کہ کیسے 8 گھنٹوں تک انسانیت درندگی کا نشانہ بنتی رہی اور کوئی ریاستی نمائندہ انکی مدد کو نہ آیا،  سانحہ قصبہ علیگڑھ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، اس سانحہ کو کافی عرصہ بیت گیا ، ہم اور آپ سانحہ کا شکار ہوکر ہلاک ہونے والوں کو زندہ تو نہیں کرسکتے مگر ان کو انصاف دلانے کے لیے اپنا کردار تو ادا کرسکتے ہیں ، اس سانحہ میں جلنے والی املاک کا ہرجانہ ان متاثرین کو نہیں دے سکتے مگر ان پر بیتنے والی قیامت تو عام شہریوں تک تو پہنچاسکتے ہیں ؟ سانحہ قصبہ و علیگڑھ کالونی و دیگر سانحات رونما کرنے والے یہاں دنیا میں تو بچ سکتے ہیں مگر آخرت میں نہیں بچے گے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں