حیدرآباد سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے جسے لوگ ’’ہواؤں کا شہر‘‘ بھی کہتے ہیں۔ حیدرآباد پاکستان کے تمام شہروں سے مختلف ہے کیونکہ یہاں کی خاص بات یہ ہے کہ دن میں چاہے جیسا بھی موسم ہو مگر شام ہوتے ہی یہاں کا موسم دل کو لبھانے والا ہوتا ہے، دن کی گرم ہوا شام ہوتے ہی ٹھنڈی ہوا میں تبدیل ہوجاتی ہے گرم موسم میں بھی راتیں سرد سرد راتوں جیسی محسوس ہوتی ہیں۔ پاکستان کے دیگرحصوں میں رہنے والے لوگ شہر حیدرآباد کو صرف اس شہر کی ٹھنڈی راتوں اور ٹھنڈی ہواؤں اور دیگر چند خصوصیات کی وجہ سے جانتے ہیں مگران ٹھنڈی راتوں اور ٹھنڈی ہواؤں میں جو زخم اور درد یہاں کے شہریوں نے برداشت کیے ہیں وہ نہ کوئی بتاتا ہے اور نہ ہی کوئی اس پر بات کرتا ہے۔ آج سے 26 سال قبل شہر حیدرآباد پکا قلعہ کے مکینوں پر جو ظلم ڈھایا گیا وہ قابل مذمت ہے۔
مزید پڑھیں: سانحہ پکا قلعہ حیدرآباد کو گزرے 26 سال ہوگئے
اس تاریخی شہر کے تاریخی قلعہ کے مکینوں پر 26 اور 27 مئی کی درمیانی شب پولیس کی وردی میں ملبوس اہلکاروں نے وہ ظلم کی داستان رقم کی جس کی چیخیں آج بھی پکا قلعہ حیدرآباد میں سنی جاسکتی ہیں ۔ 26 اور 27مئی 1990کی درمیانی شب پکا قلعہ کے رہاشی اپنے گھروں میں سورہے تھے کہ پولیس کی تقریباً 100گاڑیوں نے قلعے کو چاروں اطراف سے گھیرلیا۔ جرائم پیشہ عناصرکی آڑمیں چادراور چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا، شہریوں کے گھروں میں گھس کر لوٹ مارکی گئی، قلعہ کے مکینوں کو پانی فراہم کرنے والی ٹنکی میں شراب ڈال دی گئی، بجلی، گیس، پانی کی فراہمی معطل کردی گئی اورٹیلی فون کی تاریں کاٹ دی گئیں۔ پکا قلعہ کے رہاشیوں کا دیگر علاقوں سے رابطہ بالکل منقطع کردیا گیا، پورے شہر میں کرفیو کا سماء تھا۔ درندہ صفتوں نے وہ دہشت گردی کا مظاہرہ کیا جس میں نہ بچوں کا لحاظ کیا گیا، نہ بزرگ کا، نہ خواتین کا۔ درندہ صفت اہلکاروں نے گھروں میں داخل ہوکر نہ صرف خواتین کی بے حرمتی کی گئی بلکہ بہت سی خواتین کو ان کے اہل خانہ کے سامنے زیادتی کا نشانہ بھی بنایا، بہت سے بچوں کو ان کے ماں باپ کے سامنے شہید کردیا گیا کئی گھنٹوں تک یہ ظلم ہوتا رہا مگر کوئی مدد کو نہ پہنچا۔ بچے، بزرگ سسک سسک کر مرگئے مگر انہیں پانی بھی میسر نہ آسکا۔ پورے شہر میں کرفیو کا سماء تھا نہ کوئی قلعہ سے باہر آسکتا تھا اور نہ کوئی دوسرے علاقے سے قلعہ میں داخل ہوسکتا تھا۔ قلعہ کے لوگوں نے بہت کوشش کی کہ وہ دوسرے شہروں اور علاقے میں رہنے والے لوگوں کو اس ظلم و ستم سے آگاہ کردیں مگر ان کے پاس معلومات اور حالات کا تبادلہ کرنے کے لیے کوئی سہولت نہیں تھی جس کے باعث شہری بہت لاچار محسوس کررہے تھے، شیر خوار بچے دودھ سے محروم تھے، گھروں میں فاقہ کشی ہوگئی، بجلی کی عدم فراہمی اور پانی کی قلت سے پکا قلعہ میں محصور آبادی کی زندگی اجیرن ہوگئی۔ پکا قلعہ کے مکینوں کی دادرسی کرنے والا کوئی نہ تھا جب کوئی راستہ نہ بچا تو خواتین پاکستان کا پرچم اور قرآن پاک سر پر اٹھائے باہرنکلیں کہ شاید قرآن کے تقدس کی وجہ سے ان کی جان بچ جائے مگر ایسا بھی نہ ہوسکا، پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتی معصوم بزرگ خواتین قرآن پاک اٹھاکر اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی کی بھیک مانگتی رہیں مگر درندہ صفتوں کو رحم نہ آیا، قرآن پاک سر پر اٹھانے والی نہتی خواتین پربھی مشین گنز سے حملہ کردیا گیا اور یوں پکا قلعہ کے کئی ایک ہنستے کھیلتے گھراجاڑدیے گئے۔ شہر میں کرفیو نافذ تھا، نہ کوئی قلعے میں داخل ہوسکتا تھا اور نہ باہر جاسکتا تھا، جب قلعے کے باہر دیگر علاقوں میں اس بربریت کی خبر گئی تو دوسرے علاقوں کی خواتین نے اس درندگی پر احتجاج کیا تو ان خواتین کو بھی تشدد کا نشانہ بنا یا گیا ۔ دہشت گردی کا نشانہ بننے والے پکا قلعہ کے شہیدوں کو وہیں سپرد خاک کردیا گیا جن کی قبریں آج بھی پکا قلعہ میں موجود ہیں۔
اگلے روز 28 مئی 1990کو روزنامہ جنگ نے سانحہ پکاقلعہ حیدرآباد میں ہونے والی درندگی کو کچھ اس طرح شائع کیا ” حیدرآباد میں پولیس آپریشن 57 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ۔ خواتین نے فائرنگ بند کروانے کے لیے قرآن پاک کا واسطہ دیا جس پر پولیس نے خواتین کو بھی رائفلز کی بٹوں سے لہولہان کردیا ” ۔
سانحہ 26 27 مئی 1990ء4237 پکا قلعہ میں متاثر ہونے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم جب بھی کہیں طالبان دہشت گردوں کی کاروائی کا سنتے ہیں تو ہمارے زخم تازہ ہوجاتے ہیں اور سانحہ پکا قلعہ کا منظر آنکھوں میں گھومنے لگتا ہے کہ کس طرح چند گھنٹوں میں حکومتی سرپرستی میں ہمارے گھروں کی خوشیوں کو آگ لگادی گئی تھی ، ریاست سانحہ 26 27 مئی 1990ء4 میں شہید ہونے والے ہمارے بچوں ، بھائی ،بیٹے بیٹیوں ، اور ماں باپ کو واپس تو نہیں لاسکتی مگر ان درندہ صفت دہشت گردوں کی بربریت پر کوئی اعلی سطح کی تحقیقات کرواکر ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچاکر ہمارے زخموں پر مرہم
تو رکھ سکتی ہے۔
شہر حیدرآباد میں 26 سال پہلے درندگی سے متاثرہونے والے خاندان آج بھی اپنے پیاروں کو یاد کرکے آنسو بہاتے ہیں فاتحہ خوانی کرتے ہیں ان کے پیاروں کو بچھڑے سالوں گزر گئے مگر آج تک نہ ان کی کسی نے دادرسی کی اور نہ ہی ان کے زخموں پر مرہم رکھا مگر آج بھی متاثرہ آفراد انصاف کے منتظر ہیں۔ میں یہاں ارباب اختیار سے حیدرآباد کا شہری ہونے کی حیثیت سے یہ پوچھنا چاہو گا کہ کیا سانحہ پکا قلعہ میں شہید ہونے والے پاکستانی نہیں تھے ؟ کیا وہ انسان نہیں تھے ؟ کیا اس پر کوئی تحقیقاتی کمیشن نہیں بننا چاہیے تھا ؟ کیا چیف آف آرمی اسٹاف ، وزیراعظم پاکستان ، وزیراعلی سندھ ، چیف جسٹس آف پاکستان اور دیگر حکام اس سانحہ میں متاثر ہونے والے خاندان کو انصاف فراہم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرینگے ؟