’’ایک بوتل پانی کی لے آؤ۔‘‘
’’خدا کا خوف کرو ، روزے میں پانی مانگتے ہو۔‘‘
’’روزہ ہے تو کیا پانی سے روزہ نہ کھولو؟‘‘
’’ لیکن ابھی تو افطار میں کافی وقت ہے۔‘‘
’’ وقت تو محرم میں بھی ابھی کافی ہے لیکن یزید نے رمضان کو بھی محرم بنا دیا ہے۔‘‘
’’ کیا مطلب؟‘‘
’’ پانی کی بوند بوند کوترس گئے ہیں۔ لیکن مجال ہے کسی پر کوئی اثر ہوا ہو۔‘‘
’’ اثر کیسے ہو جب پانی بھی بکنے لگے اور پانی کاروبار بن جائے تو سبیل لگانا صرف رسم رہ جاتا ہے۔‘‘
’’حسینؓ کے نام لیوا تو بہت ہیں چاہے وہ سنی ہو یا شیعہ سب ہی ان کے نام کا دم بھرتے ہیں۔لیکن مجال ہے جو ان کی سنت پر کوئی عمل کرے اور اس یزیدیت کے خلاف کلمہ حق بلند کرے۔‘‘
’’ مجھے تو تمہاری یہ بات پانی پانی کرگئی ہے لیکن کیا کروں پانی ادھر بھی نہیں آرہا۔ ‘‘
’’ پانی تو نہیں آرہا ہوگا لیکن پانی کا بل تو آرہا ہے ناں باقاعدگی سے۔‘‘
’’ ہاں ہاں وہ توہمیں جمع کروانا ہے چاہے پانی آئے یا نہ آئے۔‘‘
’’ میں نے تو پانی کا بل ہی جمع کروانا چھوڑ دیا ہے ، جب پانی نہیں ملتا تو بل کیوں دیں؟‘‘
’’ لیکن اس کے باوجود بل باقاعدگی سے آرہا ہوگا۔‘‘
’’ جی ہاں اور نوٹس پر نوٹس بھی کہ پانی کاٹ دیں گے۔‘‘
’’مجھے ایک بات سمجھ میں نہیں آتی کہ کسی کے پاس پینے تک کو پانی نہیں اور کسی کے پاس اتنا پانی ہے کہ باہر ندی بہانے میں مصروف ہے۔‘‘
’’اس میں سمجھ میں نہ آنے والی کون سی بات ہے ۔ بدانتظامی جب عروج پر پہنچ جائے تو ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔‘‘
’’پانی کی لائنیں اتنی پرانی اور خستہ حال ہیں کہ ان کو تبدیل کرنے کے لیے حکومت کو تبدیل کرنا پڑے گا ۔‘‘
’’ وہ تو ممکن نظر نہیں آتا۔‘‘
’’تو پھر ڈالے جاؤ پانی کے ٹینکر یا پھر بورنگ کا پانی اور فلٹر پلانٹ کی منرل واٹر کی بوتلیں۔خدا بھی ایسی قوم کے حالات نہیں بدلتا جسے اپنے حالات کو بدلنے کا خیال نہ ہو۔‘‘
’’پانی کے نام پر سیاست ہورہی ہے لیکن عوام پانی پانی کو ترس گئے ہیں۔‘‘
’’جسے دیکھو پانی کی بوتلیں اٹھائے پانی کی تلاش میں نکلا دکھائی دیتا ہے۔یا پھر پانی سے بھری بوتلیں گھروں پر سپلائی ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔‘‘
’’چلتا ہوں روزہ افطار کا وقت قریب آرہا ہے، سوچا تھا کہ تمہارے گھر پانی آرہا ہوگا لیکن تم بھی میری طرح نکلے ۔ اب مجھے پانی لے کر گھر جانا ہے تاکہ روزہ کھول سکیں۔‘‘
’’ رکو میں بھی تمہارے ساتھ ہی چلتا ہوں، مجھے بھی روزہ کھولنا ہے۔‘‘
میر شاہد حسین نے اپنے قلمی سفر کا آغاز بچوں کے ایک معروف رسالے سے 1995ءمیں کیا بعد ازاں آپ اسی رسالے کی ادارت سے منسلک ہوئے اور پھر اس کے مدیر بھی رہے، آپ کو بچوں کے ادب میں کئی ایوارڈزسے بھی نوازا گیا جن میں نیشنل بک فا ؤنڈیشن بھی شامل ہے
شاید آپ یہ بھی پسند کریں
نوٹ: اے آروائی نیوزکی انتظامیہ اور ادارتی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے کروڑوں ناظرین تک پہنچے تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 700 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، سوشل میڈیا آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعار ف کے ساتھ ہمیں ای میل کریں ای میل ایڈریس: [email protected] آپ اپنے بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنک بھی بھیج سکتے ہیں۔