”یہ دہشت گردوں کی کمر کس چیز سے بنی ہے جس کے ٹوٹنے کی ہمیں روزنوید سنائی جاتی ہے لیکن یہ کم بخت ٹوٹنے کا نام ہی نہیں لیتی۔“
” دہشت گردوں کی کمر ٹوٹے یا نہ ٹوٹے لیکن عوام کی کمر ضرور ٹوٹ گئی ہے۔“
”عوام کی تو تم بات بھی نہ کرو ۔ اس نے تو ایٹم بم بنانے کے چکر میں گھاس کھا لی ہے۔“
” اور گھاس کھاتے کھاتے پتا نہیں کب اس کے گلے میں یہ رسی بھی باندھ دی گئی ۔“
”اب رسی کی ڈورجس مالک کے ہاتھ میں ہے وہ جب اسے چاہتا ہے کھینچتا ہے اور جب چاہتا ہے کھونٹے سے باندھ دیتا ہے۔“
” عوام کو اب دیر تک اس کھونٹے سے نہیں باندھ کر رکھا جاسکتا ہے۔ اس میں شعور آگیا ہے۔“
” گھاس کھا کر اگر شعور آتا تو گدھا سب سے بڑا عقلمند ہوتا ہے۔“
” عوام نے گھاس نہیں کھائی۔“
”اگر گھاس نہیں کھائی تو پھر گدھا تو ضرور کھایا ہوگا۔“
” تم گدھوں کی باتیں چھوڑو ، یہ بتاؤکہ یہ دہشت گردی کی جنگ کب ختم ہوگی؟“
” دہشت گردی کی جنگ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رہے گی۔“
” لیکن کیسے پتا چلے گا کہ یہ مرنے والا آخری دہشت گرد تھا۔“
”یہ تو دہشت گرد ہی بتا سکتا ہے اور وہ بتا ہی نہیں رہا اسی لیے پوری قوم مشکل میں پڑی ہوئی ہے۔“
” میں تو کہتا ہے اس آخری دہشت گرد کو پہلے پکڑ کر ختم کیا جائے تاکہ یہ جنگ اپنے منتقی انجام تک پہنچ سکے۔“
” یہ جنگ اپنے انجام تک پہنچے یا نہ پہنچے لیکن حکومت اپنے انجام کو پہنچنے والی ہے۔“
”وہ کیسے؟“
” دیکھ نہیں رہے انھوں نے سندھ میں گورنر کو تبدیل کردیا ہے۔“
”گورنر کی تبدیلی سے حکومت کے انجام کا کیا تعلق؟“
” سندھ میں تبدیلی کی آواز چل پڑی ہے۔ دیکھ نہیں رہے سندھ کے پرانے پرانے برج راتوں رات الٹ گئے ۔“
”تو پھر….“
”تو پھر یہ کہ تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آچکی ہے۔“
” تمہاری بات سمجھ میں نہیں آئی۔“
”حکومت اہم عہدوں پر ایسے افراد کو تعینات کررہی ہے جن کی عمریں اتنی ہوں کہ وہ کچھ کرنے کے قابل نہ ہوں۔ “
” تو پھر….“
” تو اب ان کی کوشش ہوگی کہ سپہ سالار بھی ایسے ہی شخص کو ڈھونڈ کر نکالا جائے ۔“
” لیکن اس عمر کا سپہ سالار انھیں کیسے مل سکتاہے؟“
” نہیں ملے گا …. اسی لیے تو کہہ رہا ہوں کہ تبدیلی آنہیں رہی تبدیلی آچکی ہے۔“
” اگر انھی کو چلنے دیں تو کیا خرابی ہے؟ یہ بھی تو شریف ہیں۔“
” شریف تو ہیں لیکن راحیل بھی ہیں یعنی ’ تیز رفتاریا برق رفتار‘ …. اور وہ ٹھہرے شریف نوازنے والے’نواز شریف‘۔
”دیکھو اگر انھی کو چلنے دیں تو یہ قوم کے عظیم تر مفاد میں ہوگا “
”اور اگر ان کی جگہ کسی اور کو لایا گیا تویہ حکومت کے عظیم تر مفاد میں ہوگا۔“
”میں تو بس اتنا ہی کہوں گا کہ حکومت کو ایسا شریف جرنیل نہیں مل سکتا۔“
”اور میں کہتا ہوں کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے یا نہ کرے لیکن یہ جرنیل اپنی مدت ضرور پوری کرتے ہیں۔“
” اچھا تو پھر دیکھتے ہیں کہ تبدیلی آرہی ہے یا تبدیلی آچکی ہے؟“
میر شاہد حسین نے اپنے قلمی سفر کا آغاز بچوں کے ایک معروف رسالے سے 1995ءمیں کیا بعد ازاں آپ اسی رسالے کی ادارت سے منسلک ہوئے اور پھر اس کے مدیر بھی رہے، آپ کو بچوں کے ادب میں کئی ایوارڈزسے بھی نوازا گیا جن میں نیشنل بک فا ؤنڈیشن بھی شامل ہے
شاید آپ یہ بھی پسند کریں
نوٹ: اے آروائی نیوزکی انتظامیہ اور ادارتی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے کروڑوں ناظرین تک پہنچے تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 700 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، سوشل میڈیا آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعار ف کے ساتھ ہمیں ای میل کریں ای میل ایڈریس: [email protected] آپ اپنے بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنک بھی بھیج سکتے ہیں۔