معروف دانشور اشفاق احمد نے اپنے ایک پروگرام میں حاضرین کو ایک واقعہ سنایا کہ بیرون ملک ایک مرتبہ ڈرائیونگ لائسنس نہ ہونے کی وجہ سے ان کا چالان کر دیا گیا ۔ جب وہ مجسٹریٹ کی عدالت میں پہنچے تو انھوں نے ان سے ان کے ذریعہ معاش کے بارے میں دریافت کیا ۔اشفاق احمد نے کہا کہ وہ ایک استاد ہیں ۔ ان الفاظ کے ساتھ ہی مجسٹریٹ سمیت تمام حاضرین نے ان کی تکریم کی اور مجسٹریٹ ان کو یہ کہتے ہوئے کمرہ عدالت سے باہر چھوڑنے آئے کہ ’’ٹیچر ان دی کورٹ‘‘!۔
یہ کہانی یہیں پر ختم نہیں ہوئی ۔ یہیں سے کہانی کا دوسرا حصہ شروع ہوتا ہے کہ سارہ نامی ایک ذہین لڑکی آج بہت جلدی میں تھی کیونکہ آج ہی اسے ہوم ٹیوشن کا کام ملا تھا ۔ اس نے حال ہی میں یونیورسٹی سے ماسٹرز مکمل کیا ہے اور گھریلو تنگدستی کے باعث اسے نوکری کی تلاش میں نکلنا پڑا ۔ روزانہ اخبارات دیکھتے ہوئے وہ ایک اچھے مستقبل کی آس لگا لیتی تھی اور آج کافی دنوں بعد ایک اچھا اشتہار نظر سے گزرا تھا ۔
سارہ کی طرح ہمارے ملک کے بہت سے نوجوان اخبارات میں یہ اشتہار پڑھتے ہیں کہ ہوم ٹیوشن کے لئے ماہر اور قابل اساتذہ موجود ہیں لیکن کیا استاد کسی شخصیت کی بجائے کوئی پراڈکٹ ہے جو دستیاب ہیں؟کیا وہ کوئی شے ہیں جو ہر جگہ اپنی موجودگی کو یقینی بناتے ہیں ؟ کیا اس ہوم ٹیوشن نے وقار معلم کم نہیں کر دیا ؟ ہم تو استاد کو وہ رتبہ بھی نہیں دے رہے جو اسکا حق ہے ، جبکہ استاد کوئی شے
نہیں کوئی چیز نہیں بلکہ وہ تو ایک ایسی شخصیت ہے جو ایک ادارہ ہے ، ایک اہم ہستی ہے کیونکہ وہ قوم بناتا ہے ، معاشرے کا سب سے طاقتور فرد جو چاہے تو کسی بھی پتھر کی تراش خراش کر کے اسے ہیرے کی شکل دے دے ۔
ہوم ٹیوشن کی حمایت میں بولنے والے افراد یہ یقننا کہیں گے کہ ہوم ٹیوشن کے ذریعے سے ہی والدین ڈبل فیس بھی ادا کرتے ہیں جس سے کسی بھی استاد کا اچھا گذارا ہو جاتا ہے اور اس صورت میں تو اور بھی بہترین ہو سکتا ہے جب کہ استاد کے گھر سے ہوم ٹیوشن چند گلیوں کے فاصلے پر ہو۔
ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اکثر افراد اپنے چھوٹے بچوں کے تحفظ کے لئے ہوم ٹیوشن لگواتے ہیں کیونکہ آج کل کے حالات نے والدین کو بھی پریشان کر کے رکھ دیا ہے ۔ معصوم بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات اب معمول کا حصہ بن چکے ہیں اس لئے ہوم ٹیوشن ایک اچھا اور مناسب آپشن ہو سکتا ہے۔
لیکن یہاں یہ سوال بھی ہے کہ جہاں والدین بچوں کی غیر نصابی سرگرمیوں اور ان کے اچھے مستقبل کی تکمیل کے لئے کوشش کرتے ہیں وہاں کچھ وقت بچوں کو ٹیوشن سینٹر لانے لے جانے کے لئے بھی نکال سکتے ہیں۔
کیونکہ استاد تو قوم کا معمار ہے ۔جس کے ہاتھوں تمام تر نسلیں پروان چڑھتی ہیں، کیا اسکا اتنا بھی حق نہیں کہ طالبِ علم‘ خود علم کی تلاش میں اساتذہ کے گھر تک پہنچیں؟ فی زمانہ یہ فیشن بن چکا ہے کہ قرآن پاک بھی پڑھنا ہے تو قاری صاحب گھر تشریف لا رہے ہیں، بچوں کو عام مضامین کی تعلیم دینی ہے تو بھی اساتذہ گھر آرہے ہیں۔
دوسری طرف بچے ہیں جو بدتمیزی کی حدوں کو پار کر رہے ہیں۔ ۔پہلی بات نہ صرف ہوم ٹیوشن والے اساتذہ کو جان بوجھ کر انتظار کی زحمت سے دوچار کیا جاتا ہے بلکہ اپنے گھر میں بلی بھی شیر کے مترادف بچے کسی بھی قسم کے خوف سے آزاد ہو کر کئی اوچھی حرکات کرنے سے بھی باز نہیں آتے جنہیں ان کی معصومیت اور شرارت کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے۔
کیا یہاں پر والدین کا فرض نہیں بنتا کہ وہ بچوں کی اچھی تربیت کریں اور انھیں اس بات سے آگاہ کریں کہ ٹیچر کے آنے سے پہلے وہ بالکل تیار ہوں پڑھائی کے دوران کسی قسم کی ضد نہ کی جائے اور نہ ہی کھانے پینے کا دور چلے بلکہ یکسوئی سے پڑھائی کی جائے۔ استاد جو سبق دیں اس کو دلجمعی سے یاد کیا جائے اور انھیں کسی قسم کی شکایت کا موقع بھی نہ دیا جائے ۔
اول تو ہوم ٹیوشن والے اساتذہ سے مار پیٹ اور ڈانٹ ڈپٹ کا اختیار بھی چھین لیا جاتا ہے لیکن اگر ان بچوں کی ذرا سی بھی سرزنش کی جائے تو ایک دو دفعہ کے الٹی میٹم کے بعد اپنے بچے کی غلطیوں پر پردہ ڈال کر اساتذہ کو ہی نوکری سے فارغ کر دیا جاتا ہے، بات رہی ماہانہ مشاہرہ کی تو اول تو فیس ہی بہت کم طے کیجاتی ہے جو کہ استاد کے کرائے اور باقی ضروریات پر خرچ ہو جاتی ہے اور اگر فیس کچھ بہتر بھی ہو تو دینے میں ٹال مٹول سے کام لیا جاتا ہے جبکہ اتفاقیہ چھٹی کی بھی کٹوتی کر لی جاتی ہے ۔
کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ دنیا کا سب سے مشکل کام درس و تدریس ہے، آخر ہم نے اسے اتنا ارزاں اور آسان کیوں تصور کر لیا ہے ؟ ہم یہ کیوں کہتے ہیں کہ چلو جی فارغ ہیں پڑھانے چلتے ہیں ؟ یہ بھی علم کی توہین ہے کہ ہر کس و ناکس پڑھا رہا ہے اور کسی بھی طرح اپنے پیشے سے انصاف نہیں کر رہا اور جس کو کوئی کام نہیں ملتا وہ معلم بننے کی ناکام کوشش کرتاہے۔ درس و تدریس تو انبیا کا پیشہ ہے ان کا ورثہ ہے، اسکی تحقیر کی اجازت ہر گز نہیں ہونی چاہیے ۔
ایک واقعہ ہے کہ ہمارے نبی آخر الزماں صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم ایک مرتبہ ایک محفل میں تشریف لے گئے جہاں ایک گروہ معلموں کا بھی تھا اور آپ نے اسی گروہ میں شمولیت اختیار کی اور یہ فرمایا کہ بے شک مجھے معلم بنا کر ہی بھیجا گیا ہے ۔۔امیر المومینن حضرت علی کرم اللہ وجہہ جوکہ باب ِعلم بھی ہیں، کا فرماں ہے کہ’’ جس شخص نے مجھے ایک لفظ بھی سکھا دیا وہ میرا استاد ہے خواہ وہ اس کے بعد مجھے غلام بنا لے ‘‘۔
کیا ہم میں سے کوئی آج استاد کو ایسا مقام دینے کو تیار ہے ؟؟