پاکستان میں یوں تو کسی بھی سانحہ یا حادثات و واقعات کی اعلی’ سطح کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنادیا جاتا ہے مگر اس کمیشن کا نتیجہ کچھ نہیں نکلتا اور نہ ہی اس رپورٹ تک عام شہریوں کی رسائی ہوتی ہے، نہ ہی اس کمیشن کے بعد آنے والی رپورٹ پر کوئی عمل درآمد ہوتا نظر آتا ہے۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد بننے والے حمود الرحمٰن کمیشن کی بات کیجیے یا ایبٹ آباد کمیشن کی، نتیجہ آج تک کچھ نہیں نکلا اسی لیے پاکستانی ان کمیشن رپورٹ کی اہمیت کو نہیں سمجھ پاتے۔
سانحہ کوئٹہ 8 اگست 2016 کو بلوچستان بار کونسل کے صدر کاسی صاحب پر قاتلانہ حملہ کیا گیا اور اس کے بعد جب وکلا ان کی خیریت دریافت کرنے کے لیے اسپتال پہنچے تو وہاں دہشت گردوں نے خودکش حملہ کردیا جس میں 70 سے زائد افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوئے جس کی ذمہ داری کالعدم تنظیم کی جانب سے قبول کی گئی۔
ہر طرف سے مذمتی بیان سامنے آئے اور پھر ہر بار کی طرح اس سانحہ کی تحقیقات کے لیے آئین کے آرٹیکل 184 -3 ایپکس کورٹ کے تحت کمیشن تشکیل دیا گیا جس کی سربراہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کی۔ 15 دسمبر 2016 کو اس کمیشن نے 56 دن میں تحقیقات مکمل کرکے 110 صفحات پر مشتمل رپورٹ جاری کی جس میں 18 سفارشات بھی شامل ہیں۔
جس کے کچھ نکات یہ ہیں:
سانحہ کوئٹہ کی تحقیقات کے لیے بننے والے کمیشن نے اپنی رپورٹ میں وفاقی وزارت داخلہ، وزیر اعلیٰ بلوچستان، وزیر اعلیٰ بلوچستان کی جانب سے غلط معلومات مہیا کرنے پر برہمی کا اظہار کیا۔
کمیشن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حملہ آوروں کا افغانستان سے تعلق ضرور ہے تاہم کاسی صاحب اور اسپتال میں حملہ مقامی مدد کے بغیر ممکن نہیں تھا اور خود کش حملہ آور اور اس کے ساتھی بھی پاکستانی ہی تھے جن کی مدد سے وہ سانحہ رونما ہوا۔
کافی عرصے سے یہ بات بلاگز اور تحریروں کے ذریعے اٹھائی جاتی رہی ہے کہ آخر کالعدم تنظیموں اور چوہدری نثار صاحب کے درمیان ایسا کیا تعلق ہے جس کی بنیاد پر نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے۔ ایسی کیا وجوہات ہیں کہ وہ مذہبی انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی کے بجائے ان کے ساتھ بغل گیر ہو کر تصاویر بنواتے دکھائی دیتے ہیں۔
یہ بات طے ہے کہ جب تک چوہدری نثار صاحب اور دیگر ان جیسے حکومتی ذمہ داران کالعدم تنظیموں کی کھلی سرپرستی کرتے دکھائی دیتے رہیں گے تب تک ممکن ہی نہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف مربوط ایکشن ہوتا نظر آئے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کالعدم تنظیمیں اپنی غیر قانونی سرگرمیاں کر رہی ہیں۔ کچھ دہشت گرد تنظیموں کے خلاف نہ کاروائی کی گئی ہے اور نہ ہی ان کے نام کالعدم تنظیموں کی لسٹ میں ڈالے گئے۔
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ بلوچستان کے وزارت داخلہ نے لشکر جھنگوی العالمی کا نام کالعدم تنظیموں کی لسٹ میں ڈالنے کے حوالے سے وفاقی وزارت داخلہ سے رابطہ کیا تھا لیکن جواب نہیں دیا گیا۔
کمیشن رپورٹ میں سفارش کی گئی کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ پر عمل درآمد کیا جائے اور بنا کسی تاخیر کے دہشت گرد تنظیموں کو کالعدم تنظیموں کی لسٹ میں شامل کیا جائے۔ کالعدم دہشت گرد تنظیموں کو جلسہ جلوس کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے۔
کالعدم تنظیموں کے خلاف انسداد دہشت گردی قانون کے تحت کاروائی ہونی چاہیئے۔
سانحہ کوئٹہ کمیشن رپورٹ میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار صاحب کی کالعدم تنظیموں کے سربراہان کے ساتھ ہونے والی ملاقات کا بھی ذکر کیا گیا۔
کمیشن رپورٹ میں نیشنل ایکشن پلان کی ساخت اور اس پر عمل درآمد کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا گیا۔
کمیشن رپورٹ میں سفارش کی گئی کہ نیشنل ایکشن پلان کی سمت اور مقاصد کو واضح کیا جائے اور اس کی شفافیت کی مانیٹرنگ کے لیے کوئی میکنزم بنایا جائے۔
اگر ہم کوئٹہ کمیشن رپورٹ کا مجموعی جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس رپورٹ سے صاف ظاہر ہے کہ وفاقی وزارت داخلہ، وزیر اعلیٰ بلوچستان، وزیر داخلہ بلوچستان کی جانب سے غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لیے حکومتی سطح پر کوئی تیاری نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کے جج جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کی سانحہ کوئٹہ کمیشن رپورٹ کو وفاقی وزارت داخلہ اور دیگر افراد کے خلاف چارج شیٹ قرار دیا جارہا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے تحقیقات مکمل کر کے اور حقیقت عوام کے سامنے لا کر اپنا فرض پورا کردیا مگر اب سوال یہ ہے کہ اس رپورٹ کے بعد غفلت برتنے والوں اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہوگی؟
کوئٹہ کمیشن رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد ہونا تو یہ چاہیئے تھاکہ جن وزارتوں اور افراد کی غیر ذمہ داری کا ذکر کیا گیا ہے اس سے منسلک افراد استعفیٰ دے کر اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرتے مگر ہمارے یہاں ایسے اخلاقی رویے کا کوئی سلسلہ ہی نہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ کا اس کمیشن رپورٹ کے بعد مؤقف ہے کہ وہ کسی بھی چیز سے نہیں ڈرتے اورنہ ہی ان کی کوئی آف شور کمپنی ہے اور نہ وہ کرپٹ ہیں۔ چوہدری نثار کہتے ہیں کہ وہ ہر فورم پر اس رپورٹ کو چیلنج کریں گے۔
مخالفین کی جانب سے مسلم لیگ نواز کو پہلے ہی ڈان لیکس کیس اور پانامہ لیکس کیس کی وجہ سے ہر طرف سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا کہ اب اس رپورٹ کے بعد مخالفین نے اپنے تنقید کے تیر برسانا مزید تیز کردیے ہیں۔ کوئٹہ کمیشن رپورٹ نے نہ صرف وزارت داخلہ کی کارکردگی کا پول کھول کر رکھ دیا ہے بلکہ یہ بھی واضح کردیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جو پاکستانی قوم قربانیاں دے رہی ہے اس کی سب سے اہم وجہ غیر سنجیدگی، غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے جس میں نہ صرف وزارت داخلہ شامل ہے بلکہ دیگر اداروں کی بھی بہت سی ذمہ داریاں بنتی تھی جو پوری نہیں کی گئی جو تفصیلی رپورٹ میں واضح ہے۔
سانحہ کوئٹہ کمیشن رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد بھی ذمہ داران کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی اور رپورٹ کی سفارشات پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا تو کیا ہم اس طرح سے کبھی بھی بہتر معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں؟ یہ ایک انتہائی اہم موقع ہے کہ ہم ماضی کی روایات کو توڑتے ہوئے کمیشن رپورٹ کے مطابق عمل کر کے ذمہ داران کے خلاف کاروائی کر کے نئی تاریخ رقم کردیں۔ کیا ایسا ممکن ہے؟ اگر نہیں تو اس کے لیے عوام کو اٹھ کھڑا ہونا ہوگا اور اس کو ممکن بنانے کے لیے حکمرانوں اور اداروں پر دباؤ ڈالنا ہوگا تاکہ ہر ادارہ اپنی ذمہ داری میں غفلت برتنے اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے سے اجتناب کرے۔